سرورق
پیش لفظ
خراج عقیدت سردار گنڈا سنگھ مشرقی
فہرست
فہرست اصلاح شدہ حضرت داغ دہلوی
حصہ اول
کروں پہلے یاد اس نرانکار کو
حمد
ہے واجب لکھوں پہلے حمد خدا
بھلا میں کیا لکھوں حمد خدا کو
مناجات
کریما رازقا ! روزی رسانا !
خدایا بادشاہا بے نیازا
مناجات بدرگاہ باری
خدایا بے نیازا بے ہمالا
مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات
ہری ست دھرم کا موہ گیان دیجیے
مناجات بزبان ہندی
مناجات درگاہ قاضی الحاجات
خدایا میں بندہ گنہگار ہوں
شری گورونانک دیوجی مہاراج
اے شاہ نانک کرسکوں میں کیا تیری نعت و ثنا
درنعت شری گورو نانک صاحب
پس ازحمد دارائے لوح و قلم
درنعت شری گورو گوبند سنگھ جی مہاراج
مشرقی لکھ مدحت گوبند سنگھ
خطاب بسوئے دل
اے دل بدنیا مبتلا
گورو کا نام
گورو کا نام ہے جن کی زباں پر
ہے تیرا لطف و کرم لاتعد ولاتحصیٰ
قصیدہ
حصہ دوم
ردیف الف
یارب میں دیکھتا ہوں ہر جا ظہور تیرا
ہوا دل حمد خالق میں جو مصروف رقم میرا
نالہ شب فراق جو کوئی نکل گیا
شگفتہ مثل گل کیوں ہو نہ دل بیمار ہجراں کا
کھینچ سینہ سے کماں ابرو نہ پیکاں تیر کا
میرے آگے آہنی پنجرہ ہے کیا فولاد کا
جب کسی کا قفس سے تار نفس ٹوٹ گیا
کھینچا قاتل نے ہے کیا ناز سے خنجر اپنا
کبھی تیرے عتاب نے مارا
میں وہ آتش نفس ہوں آگ ابھی
گلشن میں بلبلوں کا جب ہو دماغ ٹھنڈا
کوئی تجھ سا آفت کا پتلا نہ دیکھا
شوق انھیں اوروں پہ ہے بیداد کا
اس کو کہدو اب نہ گر وہ آئے گا
ایسا ناتواں ہوں میرا جنازہ اٹھائے کون
ہے تجلا دل میں اپنے کس رخ پرنور کا
عہد عیش و نشاط کا گزرا
عرش عظیم بھی میری آہوں سے ہل گیا
اشک چشم پر آب میں دیکھا
کسی نے غم میرا کھایا نہ کھایا
خالی نہیں صنم میری آغوش کر گیا
کنج لحد میں یہ دل جب بے قرار ہوگا
دیکھیے قسمت نہنگ اس کو پکڑکر لے چلا
تیرے رخ پر گماں کیونکر نہ ہو مہر درخشاں کا
وہ دل کو میرے جب چرانے لگا
تم جو رک رک کے بیاں کرتے ہو
سوئے رقیب پھر وہ ہے ناوک فگن ہوا
اس بت کا تو اب اس طرح آنا نہیں ہوتا
میرے دل پر کوئی ناوک نہ گر مارا تو کیا مارا
جس کو تیرے عشق کا آزار ہو گیا
نگہہ کا تیر جب مارا تو کیسا تاک کر مارا
ایک دن اے باغباں ویراں چمن ہو جائے گا
کچھ روز اور اے دل ناکام جیے جا
رخ انور نقاب میں دیکھا
ایک دن ہوگا تیرا خاک میں بستر ہوگا
سیر عالم میں میرا چاروں طرف دل بھٹکا
آج کس گل کا چراغ زندگی گل ہو گیا
دیکھ کر اس کو نہیں حیراں ہر انساں رہ گیا
پردہ رخ سے اٹھا بت پرستا
ہائے کوفت یار رات ملا
کوئی دیکھا نہیں ہے یار ایسا
پوچھنا کیا شکستہ بالوں کا
دیر کیا ہے اب ساقی موسم بہار آیا
تھا جگایا نیم خوابی میں تجھے
دل کو ہم نے بہت سا سمجھایا
اگر چہ بشر میں ہے نور خدا
گلستاں میں آج ماتم کس کا برپا ہوگیا
وصل اس ماہ کا مشکل ہے میسر ہونا
باہر تیرے چمن سے تھا آشیاں ہمارا
تیرے ہی نور کا مسکن ہے ہر ذرہ بیاباں کا
دل میں لے جائے گا گر تو ہوس جام شراب
ردیف ب
لگائے اس میں اشجار ثمرور
ہے یہ پیشانی تیری ماہ منور کا جواب
گر نکالے وہ لب سے نام شراب
نہ زباں سے ادا ہوا مطلب
بیٹھے ہیں آجو جو یاں چڑھ کے سر بام سے آپ
ردیف پ
ردیف ت
دل سے بھولا وہ حور کی صورت
یاد آئی مجھ تیری صورت
ہے جہاں دیکھو وہیں فتنہ و شر کی صورت
تھی عجب دل کو بے قراری رات
یارب نہ کوئی بھی ہو گرفتار محبت
کیا ہی جاں بخش ہے بہار بسنت
آکددھر ہے تو ساقی مخمور
ردیف ٹ
اک نظر سے ہو گیا دل لوٹ پوٹ
نہیں کسی نے اگر اس جہاں میں کھائی چوٹ
عشق میں جور سہے اے دل ناکام عبث
ردیف ث
آپ آتے ہیں نظر ہم سے خفا کیا باعث
ردیف ج
لگ جائے نہ یارب کسی حاسد کی نظر آج
دل پہ پیکان اور گردن پر میری شمشیر کھینچ
ردیف ، ج ، فارسی
کیا ہی دل کش اور فرحت بخش ہیں انوار صبح
ردیف ح
گر جائے وہ چمن میں نہال چمن کی شاخ
ردیف خ
ردیف د
کس پر اے یار کرو گے یہ جفا میرے بعد
چاہتا ہے دل کریں ہم کچھ بیان اہل درد
ملے جو پینے کو تجھ کو شراب ناب کی بوند
رخ کو تیرے لگے ہیں نگار آج چار چاند
جب سے کہ آگیا دل شیدا کو تو پسند
مجھ سے ٹوٹے جو قبا کے بند
ہے عبث حسن کا غرور گھمنڈ
ردیف ڈ
ردیف ذ
پرشکن آیا ہے اس رشک چمن کا کاغذ
ردیف ر
نہیں ہے غم گر ہمیں نکالا ہے تو نے شوخی سے تنگ ہو کر
کچھ تو خدا کے قہر کا دل میں خیال کر
جی کچھ ایسا بھر گیا سیر گلستاں دیکھ کر
ہم ان کے احاطہ سے نکل جائیں کہیں اور
سمجھو اگر تو فوق گدا کو ہے شاہ پر
سب عالم مانگتا ہے جن کی خیر
شیشہ گر نے کیا ہوا جوڑا جو شیشہ توڑ کر
باغباں ہے آمد فصل بہار
دل ہو انساں کا اگر سخت طبیعت پتھر
ہے بہار زندگانی چند روز
پیچھے پھرتی ہے میرے گردش افلاک ہنوز
ردیف ز
شعر کہنا ہے اب فقط بکواس
ردیف س
ہیں زمانہ میں ہر کس وناکس
تیرے حیف پچین گزرے برس
نہیں مجھے ساقی انعام کی حرص
ردیف ص
ردیف ط
دیکھی ہر ایک بات تیری اے صنم غلط
رونق عہد جوانی الوداع
ردیف ع
ردیف غ
ڈھونڈ مارے ہم نے سارے گلشن و گلزار و باغ
گلشن ہستی کو دیکھا اور دیھے باغ و راغ
دیکھا کسی کا ہم نے نہ ایسا سنا دماغ
آیا کبھی جو اپنے وہ بیمار کی طرف
ردیف ف
کیا ہے گر ہے صورت انساں صاف
ردیف ق
کون عالم میں میری مانند سہتا ہے قلق
نہیں ہے سینہ ہمارا سراپا داغ ہے ایک
ردیف ک
پاک منہ کو کرے گی کیا مسواک
ردیف ک فارسی (گ)
کیا کیا ہمیں دکھاتے ہیں لیل و نہار رنگ
ردیف ل
دیکھا تھا کل جو باغ میں اک باغ باغ گل
مشرقی پر درد و سوز لکھ ایک غزل
اگر اچھا نہیں ہے یہ میرا دل
پہلو میں اپنے اک ہے فقط بے قرار دل
اے دل تو کارواں سے نہ آگے نکل کے چل
ہم کیا دکھائیں لائے کیا باغ جہاں سے ہم
ردیف م
مدت رہے ہیں اتنی نگہبانیوں میں ہم
اگر چہ دور سے آتے نظر ہیں خار سے ہم
خوش رہو اے ہمدمو ہوں دور سب رنج و الم
دنیا کی چند روزہ خوشی غم سے کم نہیں
ردیف ن
اصل کی خوبی جو ہم نے نقل میں پائی نہیں
ہوگا بے رونق خزاں سے باغ ہستی ایک دن
اب کہاں وہ شباب کی باتیں
شعلہ رو کرتے ہیں جب جلوہ نمائی آب میں
کھیل لے یاروں سے مل کر شادماں دو چار دن
اس طرح رخ ہے تیرا چمکتا نقاب میں
تار گھر ہے کوچۂ دلدار میں
تجھ سا گل دیکھے بہت ایک بھی گلشن میں نہیں
نہ شکل کو نہ چشم کو نہ زر کو دیکھتے ہیں
کچھ بدگمانیاں ہیں کچھ بدزبانیاں ہیں
خار ہے بے یار گلزار و چمن
آج اپنے اپنے دل کا ماجرا کہنے کو ہیں
رکھے جو قدم آکے کبھی تو میرے گھر میں
دل اب کسی کے عشق میں بیمار ہو تو کیوں
کالی گھٹا کب آئے گی فصل بہار میں
ہوا جب سے کسی کی خنجر ابرو کا بسمل ہوں
جو تمہیں یاد کیا کرتے ہیں
تمہیں شب وعدہ درد سر تھا یہ سب ہیں بے اعتبار باتیں
کیا خطر ان کے لیے جن کا ہو گھر پانی میں
الٰہی خیر ہو وہ آج کیوں کر تن کے بیٹھے ہیں
خطا کو کب اہل کرم دیکھتے ہیں
تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں
شعلہ رو دست حنائی اپنا دھو کرآب میں
گھسی ہے تیرے سنگ در سے ہم نے یہ جبیں بوسوں
رہ گیا دم توڑ کر آخر کو ہارے ہاتھ پاؤں
ایک عالم کے ہیں ہم نے دیکھے بھالے ہاتھ پاؤں
دل اپنا عشق میں ہم بے قرار رکھتے ہیں
رہتا ہے کب ایک روش پر آسماں
گزر جائیں گے جب جوانی کے دن
استخواں لاغر بدن پر ہیں قفس کی تیلیاں
دل نہیں پہلو میں تن میں جاں نہیں
کسی کی قدر گر ہوتی وطن میں
وہ گل نہیں کہ جس میں تیری رنگ و بو نہ ہو
ہو یار پاس شکوہ کوئی درمیاں نہ ہو
ردیف و
کہ لو نرمی سے جو ہو دل کی خوشی تم مجھ کو
نہ یاسمن میں ہے ایسی نہ نسترن میں بو
جو پوچھا کدھر مہ جبیں دیکھتے ہو
خواب سے کیوں انہیں اٹھاتے ہو
بوسۂ لب کم نہ کیوں میرے کرے آزار کو
دیکھ کر مجھ کو رخ اب اپنا چھپاتے کیوں ہو
اگر الٹی بھی ہو اے مشرقی تدبیر سیدھی ہو
دل اپنا اب اسیر و والۂ عشق بتاں کیوں ہو
بوسہ دیتے ہو اگر تم مجھ کو دو دو سب کے دو
کب آہ نارسا سے کوئی دلفگار ہو
قلم سے جو لکھوں وہ مرجع صاحب کمالاں ہو
وہ کیسے ہوتا ہے تسخیر دیکھتے جاؤ
ہوتا نہیں لگاؤ انہیں مال و زر کے ساتھ
ردیف ہ
کی مے سے ہزار بار توبہ
جاں بخش و فرحت افزا ہے کیا فضائے شملہ
ہو تیرا اگر ہم پہ ستم اور زیادہ
غزل بر غزل ذوقؔ
گو کہ رکھتا ہے وہ ہم سے دور آنکھ
نہ وہ ساقی ہی رہا اور نہ وہ پیمانہ
نظر آئی بہت خلقت خدا کی
ردیف ی
فی المواعظ والنصائح
دلا زندگانی ہے نام جوانی
زروگوہر جلال و جاہ تاج و تخت ہیں فانی
نہیں طاقت زباں میں اب بیاں کی
نہیں بھاتیں ہم کو ادائیں تمہاری
روح افزا فرحت افزا ہے ہوا برسات کی
نہ غم کر باغباں سر سبز ہوگا گلستاں پھر بھی
جب سے ہے یاد ساقی کوثر لگی ہوئی
کی شکایت بھی جو ہم نے جور کی
اس پیٹ کے بکھیڑوں میں ہے صبح و شام کی
جس کو کہتے ہوں لوگ ہرجائی
اٹکھیلیاں جو ہم سے ہے کرنے صبا لگی
ایک نہ ساعت بھی خدا کی یاد کی
الفت اگر اب تم سے بڑھائی نہیں جاتی
کیا ضرورت ہے سنے کوئی مصیبت میری
کیا جہاں سے رسم یاری اٹھ گئی
وصل کی شب یوں ہی بسر ہو گئی
تازہ ایجاد جو کرتے ہو ستم اور کوئی
جوانی تیری جب گزر جاے گی
طور پر جلوہ نمائی دیکھ لی
مضموں وقت جب صورت گل ہو گئی
تیرے دل کی بیداد گر ہو گئی
تمہیں کیا پڑ گئی عادت ہے تو کی
باغباں اپنی نظر سوئے گلستاں رہ گئی
جو کی بھی کسی سے کبھی آشنائی
کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے
ردیف ے
مشکل پڑے جو کوئی تو ہمت نہ ہاریے
لبوں پر آگیا ہے دم میرا درد جدائی ہے
میرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے
ان بتوں سے ربط توڑا چاہیے
چاہنے والے کو چاہا چاہیے
رہ کر مکاں میں میرے مہماں جائیے
جس کا راہب شیخ ہو بت خانہ ایسا چاہیے
ہوں بے قصور اس قدر مارا نہ کیجیے
ناصحا آیا نصیحت ہے سنانے کے لیے
یہی طریق مناسب ہے آدمی کے لیے
وہ آرہے ہیں تیغ کو عریاں کیے ہوئے
نہ چھیڑو وہم کو کہ بیٹھے ہیں ہم ستائے ہوئے
وسعت بحر عشق کیا کہیے
ملے خاک میں نوجواں کیسے کیسے
نہ جاتا تھا ہمارا دل کسی تدبیر پہلو سے
مثل اپنے جو مقیم کوئے جاناں ہو گئے
کاٹنا ہی ہے اگر کاٹو گلا شمشیر سے
تن میرا اتنا نحیف وزار ہے
مردہ دل زندہ ہوں جب آواز سے
آپ کو جو سمجھتا بہتر ہے
کیا گلہ ہے غیر کا گر یار کا ہمراز ہے
اسے شیخ یہ جو مانیں کعبہ خدا کا گھر ہے
تو عجب شوخ اور گستاخ اے بت طناز ہے
گرد زلف سیہ جو بالا ہے
الفت بولوں کو رخ پر بام پر یوں دلربا نکلے
بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے
وصل چاہا ہے اگر غیر نے میں نے بوسہ
ہجر کی کیسی اندھیری رات ہے
فیض کی امید رکھ اس سے نہ جو کنجوس ہے
بتاؤں کیا تیری فرقت میں دردوغم کہاں تک ہے
کون ہے واقف نہیں ہے جو ہمارے ڈھنگ سے
یارب تو ذوالمنن تو ہی ذوالجلال ہے
نئے انداز ہم نے آج سب دیکھے ہیں قاتل کے
ترک آرام کیے گھر کے ہیں سارے ہم نے
کوئی تدبیر بھی بھولی نہیں ہم دل برشتوں سے
چمکتا خال کیا اس کے بزیر روئے تاباں ہے
تیرے حسن کا شہرہ ہر چار سو ہے
آفتاب حشر کی گرمی سے بے پرواہ ہے
تجھے بے وفا جو گھڑی سوجھتی ہے
شکل عالم سراب کی سی ہے
کالی کالی گھٹا برستی ہے
کبھی جاتی بھی ہے عربدہ جو آتی ہے
شرح درد دل کریں ہم تمہارے سامنے
بدلے ہے نگ چرخ ستم گر نئے نئے
ہے میرا زخم جگر اے چارہ گر جو کم بھر سے
ہیں بہت دیکھے چاہنے والے
بہت کم جوش پر ہے اب دل دلگیر پہلے سے
ہر نوک مژہ ہجر میں برچھی کی آنی ہے
مقابل میں مری طبع رواں کے موج یم کیا ہے
خضر میری عمر فانی اور ہے
پینے کو مے کے موسم شاداب چاہیے
حصہ سوم
قطعات
کسے اس دہر میں حاصل سروروشادمانی ہے
مثنوی درد انگیز
ہائے ! ہندوستان میں ہمدردی
اے مسافر تو کیوں پڑا ہے چل
مثنوی اٹھ ہوا سویرا
ساقیا بس اب پلا دے بھر کے جام
مثنوی بہارستان
مثنوی سیروگلگشت
عجب اس وقت کی تھی سیروگلگشت
مثنوی در قناعت دردمند
تھا ایک پہلوان سخت شوریدہ بخت
سامنے جس کے ہے بے قدر بہار جنت
دلا اٹھ فکر بہبود کا اب وقت فرصت ہے
وطن
فریاد دل
لہو ولعب میں ساری گزری میری جوانی
کیا خوب دل کو بھاتا ہے اپنے ظہور صبح
نیچرل مضمون صبح
بڑا بھاری ہے فرض اک آدمی کا
پابندی اوقات
امید
اے میری پیار موہنی امید
اتفاق
مفتاح باب دولت وحشمت ہے اتفاق
مے سے گھر سینکڑوں خراب ہوئے
شراب
اے شہر سر ہند خامش زباں
اشعار حسب حال شہر سر ہند
اگر دلہن کہیں ہے نوبرس کی
دلہن
دختر کشی کا پاپ
جائے نہ جپ کرانے سے دختر کشی کا پاپ
ہم بھی دنیا میں کبھی مسرور تھیں
فریاد استخواں (مردہ)
مگس ایک جنگل میں تھی اڑ رہی
عمدہ نصیحت
مفتفرق اشعار
درخشاں انجم رخشاں درخشاں
رخ انور پہ نہ ہو کیونکر منور سہرا
سہرا
تضمین اشعار گلستاں سعدی
فرد امینداز کار اے جواں
گاہ بانازوادا گہ بہ نیاز آمدہ
غزل فارسی
حصہ چہارم
بھائی صاحب باگھ سنگھ
بھائی صاحب بشن سنگھ
سرورق
پیش لفظ
خراج عقیدت سردار گنڈا سنگھ مشرقی
فہرست
فہرست اصلاح شدہ حضرت داغ دہلوی
حصہ اول
کروں پہلے یاد اس نرانکار کو
حمد
ہے واجب لکھوں پہلے حمد خدا
بھلا میں کیا لکھوں حمد خدا کو
مناجات
کریما رازقا ! روزی رسانا !
خدایا بادشاہا بے نیازا
مناجات بدرگاہ باری
خدایا بے نیازا بے ہمالا
مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات
ہری ست دھرم کا موہ گیان دیجیے
مناجات بزبان ہندی
مناجات درگاہ قاضی الحاجات
خدایا میں بندہ گنہگار ہوں
شری گورونانک دیوجی مہاراج
اے شاہ نانک کرسکوں میں کیا تیری نعت و ثنا
درنعت شری گورو نانک صاحب
پس ازحمد دارائے لوح و قلم
درنعت شری گورو گوبند سنگھ جی مہاراج
مشرقی لکھ مدحت گوبند سنگھ
خطاب بسوئے دل
اے دل بدنیا مبتلا
گورو کا نام
گورو کا نام ہے جن کی زباں پر
ہے تیرا لطف و کرم لاتعد ولاتحصیٰ
قصیدہ
حصہ دوم
ردیف الف
یارب میں دیکھتا ہوں ہر جا ظہور تیرا
ہوا دل حمد خالق میں جو مصروف رقم میرا
نالہ شب فراق جو کوئی نکل گیا
شگفتہ مثل گل کیوں ہو نہ دل بیمار ہجراں کا
کھینچ سینہ سے کماں ابرو نہ پیکاں تیر کا
میرے آگے آہنی پنجرہ ہے کیا فولاد کا
جب کسی کا قفس سے تار نفس ٹوٹ گیا
کھینچا قاتل نے ہے کیا ناز سے خنجر اپنا
کبھی تیرے عتاب نے مارا
میں وہ آتش نفس ہوں آگ ابھی
گلشن میں بلبلوں کا جب ہو دماغ ٹھنڈا
کوئی تجھ سا آفت کا پتلا نہ دیکھا
شوق انھیں اوروں پہ ہے بیداد کا
اس کو کہدو اب نہ گر وہ آئے گا
ایسا ناتواں ہوں میرا جنازہ اٹھائے کون
ہے تجلا دل میں اپنے کس رخ پرنور کا
عہد عیش و نشاط کا گزرا
عرش عظیم بھی میری آہوں سے ہل گیا
اشک چشم پر آب میں دیکھا
کسی نے غم میرا کھایا نہ کھایا
خالی نہیں صنم میری آغوش کر گیا
کنج لحد میں یہ دل جب بے قرار ہوگا
دیکھیے قسمت نہنگ اس کو پکڑکر لے چلا
تیرے رخ پر گماں کیونکر نہ ہو مہر درخشاں کا
وہ دل کو میرے جب چرانے لگا
تم جو رک رک کے بیاں کرتے ہو
سوئے رقیب پھر وہ ہے ناوک فگن ہوا
اس بت کا تو اب اس طرح آنا نہیں ہوتا
میرے دل پر کوئی ناوک نہ گر مارا تو کیا مارا
جس کو تیرے عشق کا آزار ہو گیا
نگہہ کا تیر جب مارا تو کیسا تاک کر مارا
ایک دن اے باغباں ویراں چمن ہو جائے گا
کچھ روز اور اے دل ناکام جیے جا
رخ انور نقاب میں دیکھا
ایک دن ہوگا تیرا خاک میں بستر ہوگا
سیر عالم میں میرا چاروں طرف دل بھٹکا
آج کس گل کا چراغ زندگی گل ہو گیا
دیکھ کر اس کو نہیں حیراں ہر انساں رہ گیا
پردہ رخ سے اٹھا بت پرستا
ہائے کوفت یار رات ملا
کوئی دیکھا نہیں ہے یار ایسا
پوچھنا کیا شکستہ بالوں کا
دیر کیا ہے اب ساقی موسم بہار آیا
تھا جگایا نیم خوابی میں تجھے
دل کو ہم نے بہت سا سمجھایا
اگر چہ بشر میں ہے نور خدا
گلستاں میں آج ماتم کس کا برپا ہوگیا
وصل اس ماہ کا مشکل ہے میسر ہونا
باہر تیرے چمن سے تھا آشیاں ہمارا
تیرے ہی نور کا مسکن ہے ہر ذرہ بیاباں کا
دل میں لے جائے گا گر تو ہوس جام شراب
ردیف ب
لگائے اس میں اشجار ثمرور
ہے یہ پیشانی تیری ماہ منور کا جواب
گر نکالے وہ لب سے نام شراب
نہ زباں سے ادا ہوا مطلب
بیٹھے ہیں آجو جو یاں چڑھ کے سر بام سے آپ
ردیف پ
ردیف ت
دل سے بھولا وہ حور کی صورت
یاد آئی مجھ تیری صورت
ہے جہاں دیکھو وہیں فتنہ و شر کی صورت
تھی عجب دل کو بے قراری رات
یارب نہ کوئی بھی ہو گرفتار محبت
کیا ہی جاں بخش ہے بہار بسنت
آکددھر ہے تو ساقی مخمور
ردیف ٹ
اک نظر سے ہو گیا دل لوٹ پوٹ
نہیں کسی نے اگر اس جہاں میں کھائی چوٹ
عشق میں جور سہے اے دل ناکام عبث
ردیف ث
آپ آتے ہیں نظر ہم سے خفا کیا باعث
ردیف ج
لگ جائے نہ یارب کسی حاسد کی نظر آج
دل پہ پیکان اور گردن پر میری شمشیر کھینچ
ردیف ، ج ، فارسی
کیا ہی دل کش اور فرحت بخش ہیں انوار صبح
ردیف ح
گر جائے وہ چمن میں نہال چمن کی شاخ
ردیف خ
ردیف د
کس پر اے یار کرو گے یہ جفا میرے بعد
چاہتا ہے دل کریں ہم کچھ بیان اہل درد
ملے جو پینے کو تجھ کو شراب ناب کی بوند
رخ کو تیرے لگے ہیں نگار آج چار چاند
جب سے کہ آگیا دل شیدا کو تو پسند
مجھ سے ٹوٹے جو قبا کے بند
ہے عبث حسن کا غرور گھمنڈ
ردیف ڈ
ردیف ذ
پرشکن آیا ہے اس رشک چمن کا کاغذ
ردیف ر
نہیں ہے غم گر ہمیں نکالا ہے تو نے شوخی سے تنگ ہو کر
کچھ تو خدا کے قہر کا دل میں خیال کر
جی کچھ ایسا بھر گیا سیر گلستاں دیکھ کر
ہم ان کے احاطہ سے نکل جائیں کہیں اور
سمجھو اگر تو فوق گدا کو ہے شاہ پر
سب عالم مانگتا ہے جن کی خیر
شیشہ گر نے کیا ہوا جوڑا جو شیشہ توڑ کر
باغباں ہے آمد فصل بہار
دل ہو انساں کا اگر سخت طبیعت پتھر
ہے بہار زندگانی چند روز
پیچھے پھرتی ہے میرے گردش افلاک ہنوز
ردیف ز
شعر کہنا ہے اب فقط بکواس
ردیف س
ہیں زمانہ میں ہر کس وناکس
تیرے حیف پچین گزرے برس
نہیں مجھے ساقی انعام کی حرص
ردیف ص
ردیف ط
دیکھی ہر ایک بات تیری اے صنم غلط
رونق عہد جوانی الوداع
ردیف ع
ردیف غ
ڈھونڈ مارے ہم نے سارے گلشن و گلزار و باغ
گلشن ہستی کو دیکھا اور دیھے باغ و راغ
دیکھا کسی کا ہم نے نہ ایسا سنا دماغ
آیا کبھی جو اپنے وہ بیمار کی طرف
ردیف ف
کیا ہے گر ہے صورت انساں صاف
ردیف ق
کون عالم میں میری مانند سہتا ہے قلق
نہیں ہے سینہ ہمارا سراپا داغ ہے ایک
ردیف ک
پاک منہ کو کرے گی کیا مسواک
ردیف ک فارسی (گ)
کیا کیا ہمیں دکھاتے ہیں لیل و نہار رنگ
ردیف ل
دیکھا تھا کل جو باغ میں اک باغ باغ گل
مشرقی پر درد و سوز لکھ ایک غزل
اگر اچھا نہیں ہے یہ میرا دل
پہلو میں اپنے اک ہے فقط بے قرار دل
اے دل تو کارواں سے نہ آگے نکل کے چل
ہم کیا دکھائیں لائے کیا باغ جہاں سے ہم
ردیف م
مدت رہے ہیں اتنی نگہبانیوں میں ہم
اگر چہ دور سے آتے نظر ہیں خار سے ہم
خوش رہو اے ہمدمو ہوں دور سب رنج و الم
دنیا کی چند روزہ خوشی غم سے کم نہیں
ردیف ن
اصل کی خوبی جو ہم نے نقل میں پائی نہیں
ہوگا بے رونق خزاں سے باغ ہستی ایک دن
اب کہاں وہ شباب کی باتیں
شعلہ رو کرتے ہیں جب جلوہ نمائی آب میں
کھیل لے یاروں سے مل کر شادماں دو چار دن
اس طرح رخ ہے تیرا چمکتا نقاب میں
تار گھر ہے کوچۂ دلدار میں
تجھ سا گل دیکھے بہت ایک بھی گلشن میں نہیں
نہ شکل کو نہ چشم کو نہ زر کو دیکھتے ہیں
کچھ بدگمانیاں ہیں کچھ بدزبانیاں ہیں
خار ہے بے یار گلزار و چمن
آج اپنے اپنے دل کا ماجرا کہنے کو ہیں
رکھے جو قدم آکے کبھی تو میرے گھر میں
دل اب کسی کے عشق میں بیمار ہو تو کیوں
کالی گھٹا کب آئے گی فصل بہار میں
ہوا جب سے کسی کی خنجر ابرو کا بسمل ہوں
جو تمہیں یاد کیا کرتے ہیں
تمہیں شب وعدہ درد سر تھا یہ سب ہیں بے اعتبار باتیں
کیا خطر ان کے لیے جن کا ہو گھر پانی میں
الٰہی خیر ہو وہ آج کیوں کر تن کے بیٹھے ہیں
خطا کو کب اہل کرم دیکھتے ہیں
تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں
شعلہ رو دست حنائی اپنا دھو کرآب میں
گھسی ہے تیرے سنگ در سے ہم نے یہ جبیں بوسوں
رہ گیا دم توڑ کر آخر کو ہارے ہاتھ پاؤں
ایک عالم کے ہیں ہم نے دیکھے بھالے ہاتھ پاؤں
دل اپنا عشق میں ہم بے قرار رکھتے ہیں
رہتا ہے کب ایک روش پر آسماں
گزر جائیں گے جب جوانی کے دن
استخواں لاغر بدن پر ہیں قفس کی تیلیاں
دل نہیں پہلو میں تن میں جاں نہیں
کسی کی قدر گر ہوتی وطن میں
وہ گل نہیں کہ جس میں تیری رنگ و بو نہ ہو
ہو یار پاس شکوہ کوئی درمیاں نہ ہو
ردیف و
کہ لو نرمی سے جو ہو دل کی خوشی تم مجھ کو
نہ یاسمن میں ہے ایسی نہ نسترن میں بو
جو پوچھا کدھر مہ جبیں دیکھتے ہو
خواب سے کیوں انہیں اٹھاتے ہو
بوسۂ لب کم نہ کیوں میرے کرے آزار کو
دیکھ کر مجھ کو رخ اب اپنا چھپاتے کیوں ہو
اگر الٹی بھی ہو اے مشرقی تدبیر سیدھی ہو
دل اپنا اب اسیر و والۂ عشق بتاں کیوں ہو
بوسہ دیتے ہو اگر تم مجھ کو دو دو سب کے دو
کب آہ نارسا سے کوئی دلفگار ہو
قلم سے جو لکھوں وہ مرجع صاحب کمالاں ہو
وہ کیسے ہوتا ہے تسخیر دیکھتے جاؤ
ہوتا نہیں لگاؤ انہیں مال و زر کے ساتھ
ردیف ہ
کی مے سے ہزار بار توبہ
جاں بخش و فرحت افزا ہے کیا فضائے شملہ
ہو تیرا اگر ہم پہ ستم اور زیادہ
غزل بر غزل ذوقؔ
گو کہ رکھتا ہے وہ ہم سے دور آنکھ
نہ وہ ساقی ہی رہا اور نہ وہ پیمانہ
نظر آئی بہت خلقت خدا کی
ردیف ی
فی المواعظ والنصائح
دلا زندگانی ہے نام جوانی
زروگوہر جلال و جاہ تاج و تخت ہیں فانی
نہیں طاقت زباں میں اب بیاں کی
نہیں بھاتیں ہم کو ادائیں تمہاری
روح افزا فرحت افزا ہے ہوا برسات کی
نہ غم کر باغباں سر سبز ہوگا گلستاں پھر بھی
جب سے ہے یاد ساقی کوثر لگی ہوئی
کی شکایت بھی جو ہم نے جور کی
اس پیٹ کے بکھیڑوں میں ہے صبح و شام کی
جس کو کہتے ہوں لوگ ہرجائی
اٹکھیلیاں جو ہم سے ہے کرنے صبا لگی
ایک نہ ساعت بھی خدا کی یاد کی
الفت اگر اب تم سے بڑھائی نہیں جاتی
کیا ضرورت ہے سنے کوئی مصیبت میری
کیا جہاں سے رسم یاری اٹھ گئی
وصل کی شب یوں ہی بسر ہو گئی
تازہ ایجاد جو کرتے ہو ستم اور کوئی
جوانی تیری جب گزر جاے گی
طور پر جلوہ نمائی دیکھ لی
مضموں وقت جب صورت گل ہو گئی
تیرے دل کی بیداد گر ہو گئی
تمہیں کیا پڑ گئی عادت ہے تو کی
باغباں اپنی نظر سوئے گلستاں رہ گئی
جو کی بھی کسی سے کبھی آشنائی
کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے
ردیف ے
مشکل پڑے جو کوئی تو ہمت نہ ہاریے
لبوں پر آگیا ہے دم میرا درد جدائی ہے
میرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے
ان بتوں سے ربط توڑا چاہیے
چاہنے والے کو چاہا چاہیے
رہ کر مکاں میں میرے مہماں جائیے
جس کا راہب شیخ ہو بت خانہ ایسا چاہیے
ہوں بے قصور اس قدر مارا نہ کیجیے
ناصحا آیا نصیحت ہے سنانے کے لیے
یہی طریق مناسب ہے آدمی کے لیے
وہ آرہے ہیں تیغ کو عریاں کیے ہوئے
نہ چھیڑو وہم کو کہ بیٹھے ہیں ہم ستائے ہوئے
وسعت بحر عشق کیا کہیے
ملے خاک میں نوجواں کیسے کیسے
نہ جاتا تھا ہمارا دل کسی تدبیر پہلو سے
مثل اپنے جو مقیم کوئے جاناں ہو گئے
کاٹنا ہی ہے اگر کاٹو گلا شمشیر سے
تن میرا اتنا نحیف وزار ہے
مردہ دل زندہ ہوں جب آواز سے
آپ کو جو سمجھتا بہتر ہے
کیا گلہ ہے غیر کا گر یار کا ہمراز ہے
اسے شیخ یہ جو مانیں کعبہ خدا کا گھر ہے
تو عجب شوخ اور گستاخ اے بت طناز ہے
گرد زلف سیہ جو بالا ہے
الفت بولوں کو رخ پر بام پر یوں دلربا نکلے
بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے
وصل چاہا ہے اگر غیر نے میں نے بوسہ
ہجر کی کیسی اندھیری رات ہے
فیض کی امید رکھ اس سے نہ جو کنجوس ہے
بتاؤں کیا تیری فرقت میں دردوغم کہاں تک ہے
کون ہے واقف نہیں ہے جو ہمارے ڈھنگ سے
یارب تو ذوالمنن تو ہی ذوالجلال ہے
نئے انداز ہم نے آج سب دیکھے ہیں قاتل کے
ترک آرام کیے گھر کے ہیں سارے ہم نے
کوئی تدبیر بھی بھولی نہیں ہم دل برشتوں سے
چمکتا خال کیا اس کے بزیر روئے تاباں ہے
تیرے حسن کا شہرہ ہر چار سو ہے
آفتاب حشر کی گرمی سے بے پرواہ ہے
تجھے بے وفا جو گھڑی سوجھتی ہے
شکل عالم سراب کی سی ہے
کالی کالی گھٹا برستی ہے
کبھی جاتی بھی ہے عربدہ جو آتی ہے
شرح درد دل کریں ہم تمہارے سامنے
بدلے ہے نگ چرخ ستم گر نئے نئے
ہے میرا زخم جگر اے چارہ گر جو کم بھر سے
ہیں بہت دیکھے چاہنے والے
بہت کم جوش پر ہے اب دل دلگیر پہلے سے
ہر نوک مژہ ہجر میں برچھی کی آنی ہے
مقابل میں مری طبع رواں کے موج یم کیا ہے
خضر میری عمر فانی اور ہے
پینے کو مے کے موسم شاداب چاہیے
حصہ سوم
قطعات
کسے اس دہر میں حاصل سروروشادمانی ہے
مثنوی درد انگیز
ہائے ! ہندوستان میں ہمدردی
اے مسافر تو کیوں پڑا ہے چل
مثنوی اٹھ ہوا سویرا
ساقیا بس اب پلا دے بھر کے جام
مثنوی بہارستان
مثنوی سیروگلگشت
عجب اس وقت کی تھی سیروگلگشت
مثنوی در قناعت دردمند
تھا ایک پہلوان سخت شوریدہ بخت
سامنے جس کے ہے بے قدر بہار جنت
دلا اٹھ فکر بہبود کا اب وقت فرصت ہے
وطن
فریاد دل
لہو ولعب میں ساری گزری میری جوانی
کیا خوب دل کو بھاتا ہے اپنے ظہور صبح
نیچرل مضمون صبح
بڑا بھاری ہے فرض اک آدمی کا
پابندی اوقات
امید
اے میری پیار موہنی امید
اتفاق
مفتاح باب دولت وحشمت ہے اتفاق
مے سے گھر سینکڑوں خراب ہوئے
شراب
اے شہر سر ہند خامش زباں
اشعار حسب حال شہر سر ہند
اگر دلہن کہیں ہے نوبرس کی
دلہن
دختر کشی کا پاپ
جائے نہ جپ کرانے سے دختر کشی کا پاپ
ہم بھی دنیا میں کبھی مسرور تھیں
فریاد استخواں (مردہ)
مگس ایک جنگل میں تھی اڑ رہی
عمدہ نصیحت
مفتفرق اشعار
درخشاں انجم رخشاں درخشاں
رخ انور پہ نہ ہو کیونکر منور سہرا
سہرا
تضمین اشعار گلستاں سعدی
فرد امینداز کار اے جواں
گاہ بانازوادا گہ بہ نیاز آمدہ
غزل فارسی
حصہ چہارم
بھائی صاحب باگھ سنگھ
بھائی صاحب بشن سنگھ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔