سرورق
متم زسر شہانۂ ما
جلوہ احمد دکھایا کون تھا
گر کہوں حق تو ڈر نہیں آتا
گر چہ ہوں موجود مشکل میرا پانا ہو گیا
یا ر کو میں پایا کیا ہوا اچھا ہوا
حق کو ہر جائے جلوہ گر دیکھا
نور کہتے ہیں جسے وہ ہے فقط میرا ظہور
من عرف کو جان جانا بولنا
ذات کا جو کوئی عواص ہے حقا تیرا
عیاں ہو آپ بیگانہ بنایا
معنی نہ سمجھا لفظ کے ملا ہوا تو کیا ہوا
ایکسو ہو کے بھی دل اس کو پریشاں دیکھا
دل بنایاد کی نظروں کا نشانہ اپنا
وہ عیاں ہے جو نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
خدائی کا جلوہ میں دیکھا کیا
مجھ کو کافر کہو یا مسلماں میں اللہ ہو اللہ کہوں گا
گنج مخفی سے نکل آیا وہ پہلا پتلا
دل سے کر دور اپنا آپ نقاب
ساقیا جامے زمیٔ وہ تاشوم مست وخراب
ازعدم آردبہ جلوہ عشق پرتاثیر
ہو رسول خدا کا بام نصیب
حق کے ملنے کی آرزو ہے بہت
ہر گونہ بہار است کہ در وصت زباں نیست
چشم بکشا بہ طلف من وجہانم باقی است
اے خوشا تفکر من انچہ در نہانی است
دروحدت ذات قوس وفکر بیجاست
حسن سے عاشق فریب اور نازیکتائی عبث
ایک رنگ اصل ذات سا تیرا دلق ہےآج
ہم سے روٹھے ہو بھلا کیا باعث
یاد خدا سے آیا نہ ایماں کسی طرح
جب ذات محمد ہوے یکتا شب معراج
جو چاہے خود بنائی ہر ایک زیبارخ
جز بع صفات حق آثار نمی کنجد
صعف فرقت سہل از گفتارمی باید شنید
قرب حق جوئی کار باید کرد
چوں سحر گاہم زلفطش مانگ نو شانوش بود
ہر چند جنوں سوار باشد
بہ سحر م دوش خط بادہ نوشی یاد ما آمد
یار چوں یافت شود ہر دو جہاں خواہد بود
جان ودل دادہ وخود رفتہ لہو شن باشد
جلوۂ یار اگر واجب وامکاں نشود
محوے حسن نگار باید بود
لے چکا عشق کا آسیب تو حب کا تعویذ
عاشق حسن خودام باکفر وبایماں چہ کار
پائے ہم حق کو آپ کو کھو کر
یار بامن دہم بہانہ ہنوز
وہ آب تازہ بہ اشجار وشاد ماں میباش
ہوا پردہ میں نہاں غیر کے جاناں افسوس
بہ یاد شاہدیکتائے خوش لقامیباش
بیاد گیسوئے مشکیں عنبر افشاں باش
کاشف راز وہ ہیں جو کہ ہیں رکھتے اخلاص
لابیاں اور عجب ہے شان فیض
مستند ہوتے ہیں ہر شان کے آثار غرض
یار آتا ہے نظر شاہد ومشہود فقط
میری امید کا ہر حال خداہے حافظ
خداکا جلوہ ہے بندہ نہیں ہے فی الواقع
ازکہ جو یم چارہ ایں درد بے درمان عشق
اومسیحا نظر لطف ہو بیمار کی طرف
شوق حق طلبی ہو اول میں جو میرے یکبیک
کروں کیا ہو گیا کیوں مبتلا دل
منم ازحسن نمی دانم کجا رفتم
بحمد اللہ زسر دوست آگاہ ام مسلماں ام
خود خدا ام بندہ عنقا دیدہ ام
ظہور خویش بہر سو بجم وجاں دارم
ظہور ذات وجود آشکار میدارم
خودانا گونم ونسیانت کنم
خمسہ
خمسہ
من چوں دعائے صبح عبث بے اثر کنم
تو یہ بیں مارا کہ من بندۂ نیم
عدم سے جب ہوے ظاہر بنے ہیں اپنے مامن ہم
خمسہ
زتوحیدت دلم را راز داں کن
ترک تفکر کن وخودرا ببیں
زبان بکثا بگور از یکہ ظاہر میتواں کردن
یک نظر کن کہ میتواں کردن
نماید جلوئے ازروئے حق ہرذرہ قال من
ظہور اغراض اعیانی بنی واصل میں رہتے ہیں
ایک کا ہم نشان رکھتے ہیں
دھونڈھ ہم انکو پریشان بنے بیٹھے ہیں
حق آئینہ ہے روبرو کیوں آنکھ تا نہیں
محو ایسے ہیں کہ خود آپ کو پاتے بھی نہیں
غفلت عجب ہے ہم کو دم جس کا ماتے ہیں
یک نظر دیکھو کہ ہوں میں کون ہوں کیسا ہوں میں
جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں
خودی میں خدا کو جو پا ئے ہوئے ہیں
دل میں ہوے نہاں معین الدین
ذات ہستی کو نور کہتے ہیں
رخ اپنا وہ جب سے بتائے ہوے ہیں
غیریت سے جو نظر اپنی اٹھا دیتے ہیں
آپ کو بھول کے میں یاد خدا کرتا ہوں
ہے غیر کون کیا مری چشم پرآب میں
مشترک ہوں ذات حق کے سوا ہوں کہاں ہوں میں
بقائے عالم اجسام ازذات خدا میداں
ڈھونڈتا حق کو در بدر ہے تو
ہے ذات پاک تیری بڑا کبریا ہے تو
قیاس وعقل سے سمجھا نہ دیکھا روئے جاناں کو
بندہ ہر گز نہیں ہے ذات ہے یہ
عین وجود ذات زا مکاں بر آمدہ
ایکہ باجان ودل قریں شدہ
باہمی جب گفتگو ہونے لگی
پلا دیا مجھے ساقی شراب کی باقی
عاشقی میں کیوں نہ نکلے دم تمہارے سامنے
نیک وبد مجھ کو نام کرتا ہے
شرک کا پردہ اٹھایا یار نے
ہوا آئینہ سے اظہار انکا روئے زیبا ہے
محمد مظہر کل کا سبب ہے
فدا صدیق عالم پر جہاں ہے
وحدت کی شان ایک ہے قدرت خدا کی ہے
جانتے ہیں نہیں کہتے کہ خدا کیسا ہے
صورتے نیرنگ جلوہ کردہ باشد آمدی
جہاں بات وحدت کی گھری رہیگی
ہے عشق مدینہ میں جاں کیسے کیسے
پایا ہے جس نے رمزے پیر راہ سے
قابو میں اپنا رکھتا ہوں دل یاد کے لئے
اٹھائے بار خدائی جگر یہ کس کا ہے
صاف سب کا م کئے ہم نے دعا سے پہلے
بھول ہم کو جو گئے یاد دلانا کیا ہے
اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے
راست سمجھو اسے جو میرا سخن ہوتا ہے
عجب بھول وحیرت جو مخلوق کو ہے
ظہور عالم امکاں میں حق سوا کوئی
یگانہ کر دیا مست شراب کرکے مجھے
اس نے ملنے کی قسم کھائی ہے
عاشقی کے آشکارے ہو چکے
رباعی
قطعہ
خدائی گر نہ خواہی در خود آئی
آپ ظاہر میں عجب مظہر ابعاد رہے
باشیو نات جملہ گونا گوں
الفت نے دل میں جب غلو کی
غلط وصحیح الفاظ دیوان حضرت مرکز مد ظلہ
AUTHORیاسین علی خاں مرکز
YEAR1926
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER چشتیہ پریس چھتہ بازار
AUTHORیاسین علی خاں مرکز
YEAR1926
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER چشتیہ پریس چھتہ بازار
سرورق
متم زسر شہانۂ ما
جلوہ احمد دکھایا کون تھا
گر کہوں حق تو ڈر نہیں آتا
گر چہ ہوں موجود مشکل میرا پانا ہو گیا
یا ر کو میں پایا کیا ہوا اچھا ہوا
حق کو ہر جائے جلوہ گر دیکھا
نور کہتے ہیں جسے وہ ہے فقط میرا ظہور
من عرف کو جان جانا بولنا
ذات کا جو کوئی عواص ہے حقا تیرا
عیاں ہو آپ بیگانہ بنایا
معنی نہ سمجھا لفظ کے ملا ہوا تو کیا ہوا
ایکسو ہو کے بھی دل اس کو پریشاں دیکھا
دل بنایاد کی نظروں کا نشانہ اپنا
وہ عیاں ہے جو نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
خدائی کا جلوہ میں دیکھا کیا
مجھ کو کافر کہو یا مسلماں میں اللہ ہو اللہ کہوں گا
گنج مخفی سے نکل آیا وہ پہلا پتلا
دل سے کر دور اپنا آپ نقاب
ساقیا جامے زمیٔ وہ تاشوم مست وخراب
ازعدم آردبہ جلوہ عشق پرتاثیر
ہو رسول خدا کا بام نصیب
حق کے ملنے کی آرزو ہے بہت
ہر گونہ بہار است کہ در وصت زباں نیست
چشم بکشا بہ طلف من وجہانم باقی است
اے خوشا تفکر من انچہ در نہانی است
دروحدت ذات قوس وفکر بیجاست
حسن سے عاشق فریب اور نازیکتائی عبث
ایک رنگ اصل ذات سا تیرا دلق ہےآج
ہم سے روٹھے ہو بھلا کیا باعث
یاد خدا سے آیا نہ ایماں کسی طرح
جب ذات محمد ہوے یکتا شب معراج
جو چاہے خود بنائی ہر ایک زیبارخ
جز بع صفات حق آثار نمی کنجد
صعف فرقت سہل از گفتارمی باید شنید
قرب حق جوئی کار باید کرد
چوں سحر گاہم زلفطش مانگ نو شانوش بود
ہر چند جنوں سوار باشد
بہ سحر م دوش خط بادہ نوشی یاد ما آمد
یار چوں یافت شود ہر دو جہاں خواہد بود
جان ودل دادہ وخود رفتہ لہو شن باشد
جلوۂ یار اگر واجب وامکاں نشود
محوے حسن نگار باید بود
لے چکا عشق کا آسیب تو حب کا تعویذ
عاشق حسن خودام باکفر وبایماں چہ کار
پائے ہم حق کو آپ کو کھو کر
یار بامن دہم بہانہ ہنوز
وہ آب تازہ بہ اشجار وشاد ماں میباش
ہوا پردہ میں نہاں غیر کے جاناں افسوس
بہ یاد شاہدیکتائے خوش لقامیباش
بیاد گیسوئے مشکیں عنبر افشاں باش
کاشف راز وہ ہیں جو کہ ہیں رکھتے اخلاص
لابیاں اور عجب ہے شان فیض
مستند ہوتے ہیں ہر شان کے آثار غرض
یار آتا ہے نظر شاہد ومشہود فقط
میری امید کا ہر حال خداہے حافظ
خداکا جلوہ ہے بندہ نہیں ہے فی الواقع
ازکہ جو یم چارہ ایں درد بے درمان عشق
اومسیحا نظر لطف ہو بیمار کی طرف
شوق حق طلبی ہو اول میں جو میرے یکبیک
کروں کیا ہو گیا کیوں مبتلا دل
منم ازحسن نمی دانم کجا رفتم
بحمد اللہ زسر دوست آگاہ ام مسلماں ام
خود خدا ام بندہ عنقا دیدہ ام
ظہور خویش بہر سو بجم وجاں دارم
ظہور ذات وجود آشکار میدارم
خودانا گونم ونسیانت کنم
خمسہ
خمسہ
من چوں دعائے صبح عبث بے اثر کنم
تو یہ بیں مارا کہ من بندۂ نیم
عدم سے جب ہوے ظاہر بنے ہیں اپنے مامن ہم
خمسہ
زتوحیدت دلم را راز داں کن
ترک تفکر کن وخودرا ببیں
زبان بکثا بگور از یکہ ظاہر میتواں کردن
یک نظر کن کہ میتواں کردن
نماید جلوئے ازروئے حق ہرذرہ قال من
ظہور اغراض اعیانی بنی واصل میں رہتے ہیں
ایک کا ہم نشان رکھتے ہیں
دھونڈھ ہم انکو پریشان بنے بیٹھے ہیں
حق آئینہ ہے روبرو کیوں آنکھ تا نہیں
محو ایسے ہیں کہ خود آپ کو پاتے بھی نہیں
غفلت عجب ہے ہم کو دم جس کا ماتے ہیں
یک نظر دیکھو کہ ہوں میں کون ہوں کیسا ہوں میں
جو نظر کیا میں صفات میں ہوا مجھ پہ کب یہ عیاں نہیں
خودی میں خدا کو جو پا ئے ہوئے ہیں
دل میں ہوے نہاں معین الدین
ذات ہستی کو نور کہتے ہیں
رخ اپنا وہ جب سے بتائے ہوے ہیں
غیریت سے جو نظر اپنی اٹھا دیتے ہیں
آپ کو بھول کے میں یاد خدا کرتا ہوں
ہے غیر کون کیا مری چشم پرآب میں
مشترک ہوں ذات حق کے سوا ہوں کہاں ہوں میں
بقائے عالم اجسام ازذات خدا میداں
ڈھونڈتا حق کو در بدر ہے تو
ہے ذات پاک تیری بڑا کبریا ہے تو
قیاس وعقل سے سمجھا نہ دیکھا روئے جاناں کو
بندہ ہر گز نہیں ہے ذات ہے یہ
عین وجود ذات زا مکاں بر آمدہ
ایکہ باجان ودل قریں شدہ
باہمی جب گفتگو ہونے لگی
پلا دیا مجھے ساقی شراب کی باقی
عاشقی میں کیوں نہ نکلے دم تمہارے سامنے
نیک وبد مجھ کو نام کرتا ہے
شرک کا پردہ اٹھایا یار نے
ہوا آئینہ سے اظہار انکا روئے زیبا ہے
محمد مظہر کل کا سبب ہے
فدا صدیق عالم پر جہاں ہے
وحدت کی شان ایک ہے قدرت خدا کی ہے
جانتے ہیں نہیں کہتے کہ خدا کیسا ہے
صورتے نیرنگ جلوہ کردہ باشد آمدی
جہاں بات وحدت کی گھری رہیگی
ہے عشق مدینہ میں جاں کیسے کیسے
پایا ہے جس نے رمزے پیر راہ سے
قابو میں اپنا رکھتا ہوں دل یاد کے لئے
اٹھائے بار خدائی جگر یہ کس کا ہے
صاف سب کا م کئے ہم نے دعا سے پہلے
بھول ہم کو جو گئے یاد دلانا کیا ہے
اپنا پتہ مجھے بتا بہر خدا تو کون ہے
راست سمجھو اسے جو میرا سخن ہوتا ہے
عجب بھول وحیرت جو مخلوق کو ہے
ظہور عالم امکاں میں حق سوا کوئی
یگانہ کر دیا مست شراب کرکے مجھے
اس نے ملنے کی قسم کھائی ہے
عاشقی کے آشکارے ہو چکے
رباعی
قطعہ
خدائی گر نہ خواہی در خود آئی
آپ ظاہر میں عجب مظہر ابعاد رہے
باشیو نات جملہ گونا گوں
الفت نے دل میں جب غلو کی
غلط وصحیح الفاظ دیوان حضرت مرکز مد ظلہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔