سرورق
فہرست
ابتدائیہ
مقدمہ
ردیف الف
خود بہ خود جو یار ہم سے آج سکچانے لگا
دل پر خوں جو جام ہے میرا
جی بھرا آتا ہے خالی مے کا پیالہ دے گیا
کوئی کر سکتا ہے یارو جیسا میں نے کام کیا
جو کچھ کہ تونے سر پہ مرے دلربا کیا
دنیا میں کوئی دل کا خریدار نہ پایا
جس دن سے میری آنکھوں میں وہ یار بھا گیا
دور ھی سے آتے مجھ کو دیکھا جو اس نے ٹھٹھکا
وہ رشک مہ چمن میں جاکر جو مسکرایا
کچھ نہ تھا آگے عشق کا چرچا
ب یار جب ہم کنار ہووے گا
مت بولیو تو اس سے جہاں دار دیکھنا
مطلع اسی زمیں کا جہاں دار اور بھی
پڑا جلتا ہے فرقت میں تن اپنا اور جاں اپنا
کیا جانیے کب دل کو مرے شاد کرے گا
نالہ جدھر میرا گزر کر گیا
کیا بلا ہے دل جو سینے میں دھڑک کر رہ گیا
دل مبتلا کو میرے گر لے لیا پھر کیا
خیال وصل ترا دل سے ٹک جدا نہ ہوا
معلوم ہی نہیں کہ مجھے کیا بلا ہوا
جو عشق اپنا میں اس شوخ سے عیاں کرتا
یہ میں ہی ہوں کہ تو مجھ پر ہے سو جفا کرتا
کرم جو گھر مرے وہ یار دلستاں کرتا
حاشیہ الف جو تو یاں سے رشک قمر جائے گا
مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا
پاوے گا گھر میں بار جو اک بار بے نوا
اخفاے راز کرنا ہے خوب عاشقی کا
میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
ردیف ب
ستایا تونے دل کو بے وفا خوب
نہیں یہ نالۂ زار محبت
ردیف ت
غیر ٹھیرے ترے غمخوار خدا کی قدرت
مجھ کو روتے ہی زار گزری رات
آگے کرتے تھے پیار، کیا باعث
ردیف ث
یوں جو الطاف کررہا ہے آج
مت آبھویں چڑھا کےاے پیارے عبث عبث
ردیف ج
ردیف چ
دیکھا عذار یار جو اک دن چمن کے بیچ
تنہا نہ مہر میں ہے رخ یار کی طرح
ردیف ح
نگاہ ناز سے دل لے گیا شوخ
ردیف خ
در پہ تیرے پکار کی فریاد
ردیف د
تیری مژگاں ہیں دار کی مانند
ردیف ر
ہو چمن میں اگر وہ رشک بہار
ہمارے شور نے نالے کے جاکر
اپنے قاتل کا میں کس طرح نہ ہوں دامن گیر
کیا کیا بلائیں لائیں گے کس کس کی جان پر
دیکھو تو میرے نالہ و ااہ وفغاں کی اور
ردیف س
جوں حباب آنکھ کھول کر آفسوس
حاشیہ اگرچہ تو تو زمانے میں ایک یار ہے بس
ردیف ش
صنم کو دیکھتے ہی اڑ گیا ہوش
ظلم سے اپنے کیا ہے تو محظوظ
ردیف ظ
ہیں بسکہ جزو تن مرے طاؤس وار داغ
ردیف غ
ردیف ک
ردیف ف
سینۂ پر سوز یک سو، چشم گریاں یک طرف
پہنچی ہے درد ہجر میں آجان لب تلک
جس کو کہ دسترس ہوئی دامان یار تک
کہاں طالع جو پہنچیں اس کے در تک
مجھ سے رہتا ہے تو خفا نسا حق
ردیف ق
ردیف ل
اشک ساں سر پٹک رہا ہے دل
ردیف م
جب یاد چمن کو ارے صیاد کریں ہم
نہ پوچھو دھر میں کیا کر چلے ہم
عجب اس تنگ اور باریک رہ میں
قطعہ بند
جب کہ گل گشت چمن کو ناز سے جاتے ہو تم
زلف آغشتہ جو منہ پر یہ صنم رکھتے ہیں
جدا ہو تجھ سے صنم سخت بے قرار ہوں میں
شگفتہ ہو یہ دل اور ہو گویا گلزار پہلو میں
گھڑیاں گنتے ہیں جاتی ہیں راتیں
ترے عشق کے جب سے پالے پڑے ہیں
دکھا غیروں کو گریاں آئے گا تو
ردیف و
آْج تم ناز دکھاتے ہو یہ کس کو ہم کو
یا لٰہی ایک ایسی بھی تو کوئی رات ہو
میری جو چشم زار ہیں دونو
ردیف ہ
دیکھ تیرا جمال کچھ کا کچھ
کب وہ کرتا ہے مری اور، جفا کیش نگاہ
یار کے بن بہار کیا کیجے
ردیف ی
قسمت کو اپنے لکھے کے تئیں کون دھوسکے
جوں حباب ایک ہے ہوا باقی
یک دوجام اور بھی دے تو ساقی
جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے
دل پرستار ہیں سب خلق کے مورت کی تری
جو کچھ کیا سو ہم نے کیا اپنی جاہ سے
خدا گواہ مرے درد دل کا ہے پیارے
کرے ہے رخ پہ ترے مہ طباق زر کو نثار
لگ جائے ترا دل بھی کہیں آہ کسی سے
وہ رشک مہ مری آغوش میں جو در آوے
جو جاوے بزم میں تیری اے مست بادۂ ناز
جب آفتاب ہو طالع سریر حشمت پر
تجھ بے وفا کی آہ کوئی چاہ کیا کرے
چھوڑا ملاپ یار کا اغیار کے لیے
پیٹھ کر جب وہ یار اٹھتا ہے
اکیلا چھوڑ کے بیچارے دل کے تئیں میرے
یہ شیشۂ مئے گلگوں اے یار بن تیرے
اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے
کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
کون سی بات تری ہم سے اٹھائی نہ گئی
اس وقت بارے کچھ تو کرم بخشی کیجیے
وہ نو خط ان دنوں جو مشق جفا کرے ہے
مرا گر بوسۂ امداد سازی
در بزم تو از آمدنم تا خبر ھست
براہ عشق و محبت کہ ہر قدم خطر است
چہ حاصل گر نہادی آستین بر چشم گر یا نم
ھر کہ نظارۂ آن دلبر مہ پارہ کند
قیمت بوسہ ات اگر جان است
دیدم صنمے ماہ رخے مہر لقاے باصورت زیبا
گفتم چہ کنی کیستی اے جان زکجائی گفتا کہ تراچہ
بھاتی ہیں زبس یہ چشم تر آب
ضمیمے
ضمیہ نمبر۱: تد کیر و تانیث
ضمیمہ نمبر۲: قدیم الفاظ
ضمیمہ نمبر۔۴
ب: جہاں دار کا خط علی ابراہیم کے نام
ج: جہاں دار کا خط مسٹر ڈنکن کے نام
اغلاط نامہ
سرورق
فہرست
ابتدائیہ
مقدمہ
ردیف الف
خود بہ خود جو یار ہم سے آج سکچانے لگا
دل پر خوں جو جام ہے میرا
جی بھرا آتا ہے خالی مے کا پیالہ دے گیا
کوئی کر سکتا ہے یارو جیسا میں نے کام کیا
جو کچھ کہ تونے سر پہ مرے دلربا کیا
دنیا میں کوئی دل کا خریدار نہ پایا
جس دن سے میری آنکھوں میں وہ یار بھا گیا
دور ھی سے آتے مجھ کو دیکھا جو اس نے ٹھٹھکا
وہ رشک مہ چمن میں جاکر جو مسکرایا
کچھ نہ تھا آگے عشق کا چرچا
ب یار جب ہم کنار ہووے گا
مت بولیو تو اس سے جہاں دار دیکھنا
مطلع اسی زمیں کا جہاں دار اور بھی
پڑا جلتا ہے فرقت میں تن اپنا اور جاں اپنا
کیا جانیے کب دل کو مرے شاد کرے گا
نالہ جدھر میرا گزر کر گیا
کیا بلا ہے دل جو سینے میں دھڑک کر رہ گیا
دل مبتلا کو میرے گر لے لیا پھر کیا
خیال وصل ترا دل سے ٹک جدا نہ ہوا
معلوم ہی نہیں کہ مجھے کیا بلا ہوا
جو عشق اپنا میں اس شوخ سے عیاں کرتا
یہ میں ہی ہوں کہ تو مجھ پر ہے سو جفا کرتا
کرم جو گھر مرے وہ یار دلستاں کرتا
حاشیہ الف جو تو یاں سے رشک قمر جائے گا
مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا
پاوے گا گھر میں بار جو اک بار بے نوا
اخفاے راز کرنا ہے خوب عاشقی کا
میں تو سو بار ترے ملنے کو آیا تنہا
ردیف ب
ستایا تونے دل کو بے وفا خوب
نہیں یہ نالۂ زار محبت
ردیف ت
غیر ٹھیرے ترے غمخوار خدا کی قدرت
مجھ کو روتے ہی زار گزری رات
آگے کرتے تھے پیار، کیا باعث
ردیف ث
یوں جو الطاف کررہا ہے آج
مت آبھویں چڑھا کےاے پیارے عبث عبث
ردیف ج
ردیف چ
دیکھا عذار یار جو اک دن چمن کے بیچ
تنہا نہ مہر میں ہے رخ یار کی طرح
ردیف ح
نگاہ ناز سے دل لے گیا شوخ
ردیف خ
در پہ تیرے پکار کی فریاد
ردیف د
تیری مژگاں ہیں دار کی مانند
ردیف ر
ہو چمن میں اگر وہ رشک بہار
ہمارے شور نے نالے کے جاکر
اپنے قاتل کا میں کس طرح نہ ہوں دامن گیر
کیا کیا بلائیں لائیں گے کس کس کی جان پر
دیکھو تو میرے نالہ و ااہ وفغاں کی اور
ردیف س
جوں حباب آنکھ کھول کر آفسوس
حاشیہ اگرچہ تو تو زمانے میں ایک یار ہے بس
ردیف ش
صنم کو دیکھتے ہی اڑ گیا ہوش
ظلم سے اپنے کیا ہے تو محظوظ
ردیف ظ
ہیں بسکہ جزو تن مرے طاؤس وار داغ
ردیف غ
ردیف ک
ردیف ف
سینۂ پر سوز یک سو، چشم گریاں یک طرف
پہنچی ہے درد ہجر میں آجان لب تلک
جس کو کہ دسترس ہوئی دامان یار تک
کہاں طالع جو پہنچیں اس کے در تک
مجھ سے رہتا ہے تو خفا نسا حق
ردیف ق
ردیف ل
اشک ساں سر پٹک رہا ہے دل
ردیف م
جب یاد چمن کو ارے صیاد کریں ہم
نہ پوچھو دھر میں کیا کر چلے ہم
عجب اس تنگ اور باریک رہ میں
قطعہ بند
جب کہ گل گشت چمن کو ناز سے جاتے ہو تم
زلف آغشتہ جو منہ پر یہ صنم رکھتے ہیں
جدا ہو تجھ سے صنم سخت بے قرار ہوں میں
شگفتہ ہو یہ دل اور ہو گویا گلزار پہلو میں
گھڑیاں گنتے ہیں جاتی ہیں راتیں
ترے عشق کے جب سے پالے پڑے ہیں
دکھا غیروں کو گریاں آئے گا تو
ردیف و
آْج تم ناز دکھاتے ہو یہ کس کو ہم کو
یا لٰہی ایک ایسی بھی تو کوئی رات ہو
میری جو چشم زار ہیں دونو
ردیف ہ
دیکھ تیرا جمال کچھ کا کچھ
کب وہ کرتا ہے مری اور، جفا کیش نگاہ
یار کے بن بہار کیا کیجے
ردیف ی
قسمت کو اپنے لکھے کے تئیں کون دھوسکے
جوں حباب ایک ہے ہوا باقی
یک دوجام اور بھی دے تو ساقی
جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے
دل پرستار ہیں سب خلق کے مورت کی تری
جو کچھ کیا سو ہم نے کیا اپنی جاہ سے
خدا گواہ مرے درد دل کا ہے پیارے
کرے ہے رخ پہ ترے مہ طباق زر کو نثار
لگ جائے ترا دل بھی کہیں آہ کسی سے
وہ رشک مہ مری آغوش میں جو در آوے
جو جاوے بزم میں تیری اے مست بادۂ ناز
جب آفتاب ہو طالع سریر حشمت پر
تجھ بے وفا کی آہ کوئی چاہ کیا کرے
چھوڑا ملاپ یار کا اغیار کے لیے
پیٹھ کر جب وہ یار اٹھتا ہے
اکیلا چھوڑ کے بیچارے دل کے تئیں میرے
یہ شیشۂ مئے گلگوں اے یار بن تیرے
اے ظالم ترے جب سے پالے پڑے
کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
کون سی بات تری ہم سے اٹھائی نہ گئی
اس وقت بارے کچھ تو کرم بخشی کیجیے
وہ نو خط ان دنوں جو مشق جفا کرے ہے
مرا گر بوسۂ امداد سازی
در بزم تو از آمدنم تا خبر ھست
براہ عشق و محبت کہ ہر قدم خطر است
چہ حاصل گر نہادی آستین بر چشم گر یا نم
ھر کہ نظارۂ آن دلبر مہ پارہ کند
قیمت بوسہ ات اگر جان است
دیدم صنمے ماہ رخے مہر لقاے باصورت زیبا
گفتم چہ کنی کیستی اے جان زکجائی گفتا کہ تراچہ
بھاتی ہیں زبس یہ چشم تر آب
ضمیمے
ضمیہ نمبر۱: تد کیر و تانیث
ضمیمہ نمبر۲: قدیم الفاظ
ضمیمہ نمبر۔۴
ب: جہاں دار کا خط علی ابراہیم کے نام
ج: جہاں دار کا خط مسٹر ڈنکن کے نام
اغلاط نامہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔