کس جا نہیں ظہور خدائے قدیر کا
چشم حق ہیں سے غور کرد یکھا
اسے یاس جو تو دل میں آئی سب کچھ ہوا پر کچھ بھی نہ ہوا
مہندی پاؤں میں کیا لگانا تھا
کعبۂ دل کو اگر ڈھایئے گا
تربت پہ وہ لالہ فام آیا
میں کیا جنوں میں سارا جہاں مبتلا ہوا
کروں کس سے فریاد کیا ہوگیا
ناتواں وہ ہوں کہ دم بھر نہیں بیٹھا جاتا
اسے فلک مجھ کو یہ سامان میسر ہوگا
دمبدم یہ نالہ و فریاد کیا
خدا جانے اب جاکے کب آیئے گا
کیا قیامت سے تیرا ترچھی نظر سے دیکھنا
زلف کے پھندے میں دل اولجھائے گا
جب تک ترا دیدار میسر نہیں ہوتا
میں تیرے تیر نگہ کا یار گھائل کیا ہوا
مہرباں کچھ بھی اگر میرا مسیحا ہوتا
نہیں نہیں کہ صدا ہر زباں بہت اچھا
غم دوری مجھے شکل نہ ہوتا
ہے طوبیٰ قد بت طرار تیرا
خورشید لقا مجھ سے تو دن بھر نہیں ملتا
رو برو میرے جو غیروں سے اشارا ہوگا
بل جو ابرو پہ دیئے وہ بت خود کام آیا
سنو موسیٰ سے کہ تھا طور پہ جلوا کیسا
کوئے جاناں سے عشق کیا لایا
کھلی جو آنکھ میری سامنا قضا سے ہوا
مینہ نہ تہمتا تو یار کل جاتا
دشمن کو لے کر ساتھ ستم گر ادھر بڑھا
صنم نہ ہجر کا اب پیچ و تاب دیتا جا
گیا ہے اس طرف جو نامہ لے کر پھر نہیں سکتا
وہ گیسو رخ پہ بل کھایا تو ہوتا
جنت سے غرض کچھ ہے نہ گلزار سے مطلب
اچھا نہیں ہے عشق کے مجرم سے اجتناب
ہم سے جو پوچھتے ہیں تو رشکِ قمر ہیں آپ
دشمنوں کو نہ ساتھ لائیں آپ
کس کی دھن میں تھی بیقراری رات
جب بگڑتا ہے تجھ کو یار عبث
لائے گا کیا گیا ہے وہاں نامہ بر عبث
کیا خلاصی ہو کہ ہے یہ مری تقدیر کا پیچ
تونے جو مجھ کو رلایا ہے سر میخانہ آج
جس نے دیکھا نہ ہو تلوار کا پیچ
طفلی پیری و نوجوانی ہیچ
ساقیا ایسا پلا دے مئے کا مجھ کو جام تلخ
جانتا اس کو ہوں دوا کی طرح
کی کسی پر نہ جفا میرے بعد
کیا تھا طلب دل نے چاہت کا تعویذ
وہ کافر پھر گیا بالیں تک آکر
جب سے کچھ قابو ہے اپنا کا کل خمدار پر
کیوں کیا تھا وصل کا اقرار پھر
مرمر کے کررہا ہوں میں اپنی بسر ہنوز
وہ نہ آیا کبھی ادھر افسوس
جب سے یہاں ہوئی درِ دلدار کی تلاش
جز موت کیا ہے ان کے خدنگ نظر کے پاس
تھی جوانی کی یہ ساری حص
پوچھیں کسی کا حال زار ان کی حیا کو کیا غرض
تونے غیروں سے جب بڑہایا ربط
ہوتا جو در کوئی تو کرتا میں کیا لحاظ
پروانے کیوں نہ جان گنوائیں برائے شمع
ہیں دل میں لاکھ داغ جگر میں ہزار داغ
تکتا ہوں جب میں ابروئے خمدار کی طرف
عاشق کے لئے ہجر کا آزار کہا ں تک
بھڑکا ہوا ہے دل میں تری رہگزر کا شوق
دشمن ہیں وہ بھی جان کے جو ہیں ہمارے لوگ
نہیں ہے کوئی جگہ جسمِ زار کے قابل
کیوں کل سے یہ بیکل ہے مرا دل نہیں معلوم
لحد میں بھی دغدغہ ہے مجھ کو فاتحہ کو وہ آنہ جائیں
سب سہی تکرار کی اچھی نہیں
بند قبا پہ ہاتھ ہے شرمائے جاتے ہیں
سنبھالے سے دل اب سنبھلتا نہیں
جو گزرتی ہے بیاں یار کوروں یا نہ کروں
تم سا جہاں میں بھی کوئی بیداد گر نہ ہو
مرض ہے عشق کا اسے یار ہم کو
کس کی اس تک رسائی ہوتی ہے
ہماری وہ وفاداری کہ توبہ
تری زلف میں دل پھنسا چاہتا ہے
ہمارے دل کو غم اس کا بہت ہے
بچ گئے گر فرقتِ دلدار سے
کچھ پوچھ نہ اسے یار حکایت میرے دل کی
جو عکسِ عارض روشن ترا شراب میں ہے
اس کے کوچہ سے یہ ہم حال بنا کر نکلے
کسی امیر سے کرنا نہیں سوال مجھے
محبت میں گو تیری مر جائیں گے
کیا دمِ نزع کوئی اور تمنا کرتے
شاہ کیونکر نہ ہوں ہم موت کے آجانے سے
آخر نہ بچا تری نظر سے
مرنے کے بعد آیا لحد میں اتار نے
چشم سیہ مست کو اپنی دکہادے مجھے
خواب میں آکر جو منہ دکھلا گئے
یاد شاید کر رہا ہے ساقی گلرو مجھے
دردِ دوری کیا بلا ہے دل سے پوچھا چاہیئے
ساقیا جس دن سے مجھ سے چھٹ گیا میخانہ ہے
کہے ہے تو کہ وہ تربت پہ ہو جائے تو کیا کیجے
دے چکا دل اسے اب جان رہے یا نہ رہے
خواب میں شکل جو وہ اپنی دکھایا کرتے
پس مردن بھی ڈھیر اک خاک کا یہ جسم خاکی ہے
بہار آئی ہے صدمہ سے ہمارا حال ابتر ہے
غنیمت مل گئی تھی دولتِ دیدار کیا کہیئے
بعد مرنے کے کھلی ان پہ محبت میری
درد دل اپنا سنانا چاہئے
ہوں جس کی جستجو میں وہ لالہ روکہاں ہے
کون سا ایسا ستم تجھ پر ہوا صیاد سے
زندگی بھر نہ تمنائے زیارت نکلی
کسی کے آج آنے کی خبر ہے
پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے
اس کے دل میں کس کی الفت آگئی
دید جاناں کی ہوس رلوائیگی
چھانتے خاک ہیں اس راہ سے آنیوالے
اے شجوم یاس و غم رستہ نہیں اب دل میں ہے
اب فتنہ گر کو حاجتِ شہرت نہیں رہی
ہو گئی شب جو تری زلفِ چلیبا دیکھی
بھلا زمانہ کا کب ایک حال رہتا ہے
خمسہ
سہرا
نامہ
نامہ دیگر
نامہ دیگر
ضمیمہ
عورت کیا ہے
غزل
ٹھمریاں
AUTHORحقیر
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER نامعلوم تنظیم
AUTHORحقیر
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER نامعلوم تنظیم
کس جا نہیں ظہور خدائے قدیر کا
چشم حق ہیں سے غور کرد یکھا
اسے یاس جو تو دل میں آئی سب کچھ ہوا پر کچھ بھی نہ ہوا
مہندی پاؤں میں کیا لگانا تھا
کعبۂ دل کو اگر ڈھایئے گا
تربت پہ وہ لالہ فام آیا
میں کیا جنوں میں سارا جہاں مبتلا ہوا
کروں کس سے فریاد کیا ہوگیا
ناتواں وہ ہوں کہ دم بھر نہیں بیٹھا جاتا
اسے فلک مجھ کو یہ سامان میسر ہوگا
دمبدم یہ نالہ و فریاد کیا
خدا جانے اب جاکے کب آیئے گا
کیا قیامت سے تیرا ترچھی نظر سے دیکھنا
زلف کے پھندے میں دل اولجھائے گا
جب تک ترا دیدار میسر نہیں ہوتا
میں تیرے تیر نگہ کا یار گھائل کیا ہوا
مہرباں کچھ بھی اگر میرا مسیحا ہوتا
نہیں نہیں کہ صدا ہر زباں بہت اچھا
غم دوری مجھے شکل نہ ہوتا
ہے طوبیٰ قد بت طرار تیرا
خورشید لقا مجھ سے تو دن بھر نہیں ملتا
رو برو میرے جو غیروں سے اشارا ہوگا
بل جو ابرو پہ دیئے وہ بت خود کام آیا
سنو موسیٰ سے کہ تھا طور پہ جلوا کیسا
کوئے جاناں سے عشق کیا لایا
کھلی جو آنکھ میری سامنا قضا سے ہوا
مینہ نہ تہمتا تو یار کل جاتا
دشمن کو لے کر ساتھ ستم گر ادھر بڑھا
صنم نہ ہجر کا اب پیچ و تاب دیتا جا
گیا ہے اس طرف جو نامہ لے کر پھر نہیں سکتا
وہ گیسو رخ پہ بل کھایا تو ہوتا
جنت سے غرض کچھ ہے نہ گلزار سے مطلب
اچھا نہیں ہے عشق کے مجرم سے اجتناب
ہم سے جو پوچھتے ہیں تو رشکِ قمر ہیں آپ
دشمنوں کو نہ ساتھ لائیں آپ
کس کی دھن میں تھی بیقراری رات
جب بگڑتا ہے تجھ کو یار عبث
لائے گا کیا گیا ہے وہاں نامہ بر عبث
کیا خلاصی ہو کہ ہے یہ مری تقدیر کا پیچ
تونے جو مجھ کو رلایا ہے سر میخانہ آج
جس نے دیکھا نہ ہو تلوار کا پیچ
طفلی پیری و نوجوانی ہیچ
ساقیا ایسا پلا دے مئے کا مجھ کو جام تلخ
جانتا اس کو ہوں دوا کی طرح
کی کسی پر نہ جفا میرے بعد
کیا تھا طلب دل نے چاہت کا تعویذ
وہ کافر پھر گیا بالیں تک آکر
جب سے کچھ قابو ہے اپنا کا کل خمدار پر
کیوں کیا تھا وصل کا اقرار پھر
مرمر کے کررہا ہوں میں اپنی بسر ہنوز
وہ نہ آیا کبھی ادھر افسوس
جب سے یہاں ہوئی درِ دلدار کی تلاش
جز موت کیا ہے ان کے خدنگ نظر کے پاس
تھی جوانی کی یہ ساری حص
پوچھیں کسی کا حال زار ان کی حیا کو کیا غرض
تونے غیروں سے جب بڑہایا ربط
ہوتا جو در کوئی تو کرتا میں کیا لحاظ
پروانے کیوں نہ جان گنوائیں برائے شمع
ہیں دل میں لاکھ داغ جگر میں ہزار داغ
تکتا ہوں جب میں ابروئے خمدار کی طرف
عاشق کے لئے ہجر کا آزار کہا ں تک
بھڑکا ہوا ہے دل میں تری رہگزر کا شوق
دشمن ہیں وہ بھی جان کے جو ہیں ہمارے لوگ
نہیں ہے کوئی جگہ جسمِ زار کے قابل
کیوں کل سے یہ بیکل ہے مرا دل نہیں معلوم
لحد میں بھی دغدغہ ہے مجھ کو فاتحہ کو وہ آنہ جائیں
سب سہی تکرار کی اچھی نہیں
بند قبا پہ ہاتھ ہے شرمائے جاتے ہیں
سنبھالے سے دل اب سنبھلتا نہیں
جو گزرتی ہے بیاں یار کوروں یا نہ کروں
تم سا جہاں میں بھی کوئی بیداد گر نہ ہو
مرض ہے عشق کا اسے یار ہم کو
کس کی اس تک رسائی ہوتی ہے
ہماری وہ وفاداری کہ توبہ
تری زلف میں دل پھنسا چاہتا ہے
ہمارے دل کو غم اس کا بہت ہے
بچ گئے گر فرقتِ دلدار سے
کچھ پوچھ نہ اسے یار حکایت میرے دل کی
جو عکسِ عارض روشن ترا شراب میں ہے
اس کے کوچہ سے یہ ہم حال بنا کر نکلے
کسی امیر سے کرنا نہیں سوال مجھے
محبت میں گو تیری مر جائیں گے
کیا دمِ نزع کوئی اور تمنا کرتے
شاہ کیونکر نہ ہوں ہم موت کے آجانے سے
آخر نہ بچا تری نظر سے
مرنے کے بعد آیا لحد میں اتار نے
چشم سیہ مست کو اپنی دکہادے مجھے
خواب میں آکر جو منہ دکھلا گئے
یاد شاید کر رہا ہے ساقی گلرو مجھے
دردِ دوری کیا بلا ہے دل سے پوچھا چاہیئے
ساقیا جس دن سے مجھ سے چھٹ گیا میخانہ ہے
کہے ہے تو کہ وہ تربت پہ ہو جائے تو کیا کیجے
دے چکا دل اسے اب جان رہے یا نہ رہے
خواب میں شکل جو وہ اپنی دکھایا کرتے
پس مردن بھی ڈھیر اک خاک کا یہ جسم خاکی ہے
بہار آئی ہے صدمہ سے ہمارا حال ابتر ہے
غنیمت مل گئی تھی دولتِ دیدار کیا کہیئے
بعد مرنے کے کھلی ان پہ محبت میری
درد دل اپنا سنانا چاہئے
ہوں جس کی جستجو میں وہ لالہ روکہاں ہے
کون سا ایسا ستم تجھ پر ہوا صیاد سے
زندگی بھر نہ تمنائے زیارت نکلی
کسی کے آج آنے کی خبر ہے
پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے
اس کے دل میں کس کی الفت آگئی
دید جاناں کی ہوس رلوائیگی
چھانتے خاک ہیں اس راہ سے آنیوالے
اے شجوم یاس و غم رستہ نہیں اب دل میں ہے
اب فتنہ گر کو حاجتِ شہرت نہیں رہی
ہو گئی شب جو تری زلفِ چلیبا دیکھی
بھلا زمانہ کا کب ایک حال رہتا ہے
خمسہ
سہرا
نامہ
نامہ دیگر
نامہ دیگر
ضمیمہ
عورت کیا ہے
غزل
ٹھمریاں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔