سرورق
بسکہ تھا ہر داغ سوزش برتن رنجور کا
ابر دودہ آسوز ان گر ہوا پر چھاے گا
چھوٹے ہے جو فوارہ خون ہربن مو سے
درد آشنا جہاں میں کوئی مجھ سا کم ہوا
مردے زندہ ہوتے ہیں اعجاز یہ چال کا
مجلس افروز جو شب چہرۂ جانا نہ ہوا
آفت جان نہ فقط یار کا انداز ہوا
رہی قدر شرافت کیا زمانے کا چلن بگڑا
گر خط میں رقم وصف گیسوے بتاں ہوتا
زلفوں سے اسنے کام لیا ہے نقاب کا
ہمیں یہ شب پس دیوار اسکی خواب آیا
ہے زہر حقمیں تیرے دولت کا یہ ذخیرا
کسکی صفاے تن سے نادم ہوا ہے ہیرا
پاے بوسی سے یہ کس گل کی ہے مایوس حنا
بسکہ کی پاے جنوں نے میرے طاقت پیدا
بزم میں واجو نقاب رخ جاناں ہوگا
خط اور زیب عارض جانا نہ ہو گیا
ہیں تیرے گر یہ ناک جہاں دفن خاک میں
مہیا شبنم گل میں ہو آب و دانہ بلبل کا
تب وصف لعل لب کا ترے کچھ بیاں ہوا
ہر عضو بدن ایک سے ہے ایک ترا خوب
نالہ محزوں ہے کسکا ہم نوائے عندلیب
گل ہے عارض تو قد یار درخت
آنے سے میرے گھر کے تمہیں عار ہے عبث
یاد آئے ہیں یہ کسکے پھول سے رخسار سرخ
خط مشکیں یہ نہیں ہے عارض دلدار پر
پڑا ہے عکس کس سیمین بدنکا صحن گلشن پر
تنہا نہ دست غم سے گریباں ہے تار تار
موج سر شک ہو جو نہ زنجیر پاے شمع
روشنی کیا چاہیے ہم تیرہ زدونکو پتنگ
کیونکر یہ تف اشک سے مژگاں میں لگی آگ
چشم خونبار سا برسے نہ کبھو پانی ایک
انتظار یار میں وہ بن گئے نرگس کے پھول
قفس بلبل کا سوئے گلستاں لانے سے کیا حاصل
تیری صفاے پاکو نہ پہونچیگا روے گل
وحشت دل سے جو گھبراتے ہیں ہم
ہوگی شب فراق نہ شوروشغب سے کم
کون کہتا ہے کہ ہم عشق نہاں رکھتے ہیں
بسمل تیغ خون چکاں ہوں میں
کسطرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں
ناز ہر گز کرے آئینہ ساز آہن
فرد عصیاں کی سیاہی کا ہمیں کچھ غم نہیں
حرص سے خالی یہاں کوئی بنی آدم نہیں
مبتلا رنج مکافات میں فرزانے ہیں
پیدا برنگ مار اگر دو زباں کروں
بے صرفہ چشم تر سے آنسو بہا دیے ہیں
ہے کسے شوق شہادت میں خیال گردن
کون ہے وہ جو گرفتار علائق یاں نہیں
کوہ و صحرا اک ہماری دم سے اب آباد ہیں
کیں نہ اک دست جنوں نے پیرہن کی دھجیاں
اسی پہ پڑتی ہے آنکھ اپنی نازنینوں میں
اللہ رے شرم حسن کو مجنوں کو دیکھ کر
تراشک خوں سے گوشۂ داماں ہے ان دنوں
مآل کار تعبیر جہاں کا جو خیال آیا
خدا بھی دوست رکھتا ہے نہایت اپنے شیدا کو
فرض جانا اسنے سجدہ آستان یار کو
کافر ہو جسکو اس سے تمنا زیادہ ہو
خط مشکیں چاہیے کیا اس رخ پرنور کو
دست رنگیں سے چھپایا چہرۂ پرنور کو
تونے تربت پہ مری دو نہ گراے آنسو
جذب دل ہی میں کیا خون دل بسمل کو
تحریر اسکی ناز کی عضو تن نہ ہو
وہ جام مے پیے تو مجھے یاں خمار ہو
مرغ دل عشاق کی خاطر نہ نشان ہو
مصلحت رو کو سمجھتا ہوں میں ایمان اس کو
ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ
گھورتی ہے بیطرح تصویر پشت آئینہ
عبث وہ شرمگیں رہتا ہے استبع آنکھونسے
شب جدائی کا مجھ کو کھٹکا زبسکہ روز وصال بھی ہے
اس سراے دہر میں ہر دم مقام و کوچ ہے
نگاہ یار ہمسے آج بے تقصیر پھرتی ہے
چمن کوچہ جاناں سے پر کیاآتی ہے
تجھ سے محبوب سے جس وقت بگڑ جاتی ہے
محفل عشرت بھی خوش آتی نہیں اصلا مجھے
حور کو کہتے ہیں خوش چہر بھلا کس رو سے
چھٹ پنے ہی میں یار آفت ہے
چشمۂ کہسار ہی روتے نہیں ہیں آجتک
کیا لگی ہےآگ میرے نالۂ فریادسے
عجائب اس پری کا پان کھا کر مسکرانا ہے
عرق ٹپکا جہاں اس کی جبیں سے
دے مجھے اک جام ساقی اس مئے پرزور سے
وہ تو کہتا تھا انا الحق اور انا معشوق ہم
وہ ظالم جب کوئی تازہ ستم ایجاد کرتا ہے
تن پر جو گل انداموں کے یہی بدہی پڑی ہے
گولگی ہچکی ہے اور ہے آنکھ پتھرائی ہوئی
نمازی سے فروزاں رخ پرنور نہ ہو جائے
جسکے دلپر ہون لگے ناوک مژگاں کتنے
جھمک اس کی رخ پرنور کی دیکھیں اگر تارے
جسکے نگاہ کی میرے دلپر سنان لگی
اب پس قافلہ جز شوروفغان کیا کیجیے
کیا ہے میں نے بہ داغ دل مضطر کو پنبہ سے
بستر گل ہے جوواں پہلوے جاناں کے تلے
مرجان ہے لب یار ذرا کم نہیں اس سے
نشان رہا نہ مٹے ہم حبا ب وار ایسے
وہ رمز کون سی تھی نہ جو سر بسر کھلی
شہید نا ز کسی کو جو لالہ رو کرتے
غم نہیں اسکا کوئی شے گر بنے اور ٹوٹ جائے
نے کام قبا سے ہے نہ مطلب کفنی سے
رات کو واجو نقاب رخ دلبر ہو جائے
محفل عشرت بھی خوش آتی نہیں اصلا مجھے
سوز فراق بسکہ ہمارے بدن میں ہے
بیابان محبت سے گزرنا سخت مشکل ہے
باز آو کہیں اب بھی ستانے سے کسی کے
شہادت کے بھی دن حسرت نہ نکلی کچھ مرے دل کی
کام یاں جسکو پرا ہے چشم وزلف یار سے
خط کا مضموں مرے وہ طفل سمجھتا کب ہے
پابند گیسوے سیہ یار ہم ہوے
شب جو گیسوے سیہ سر کی رخ جاناں سے
آئے ہیں تنگ ہم ستم روزگار سے
ٹپکنے پر ہیں قطرات عرق زلف معنبر سے
ہم فقیروں کا بدن آلودگی سے پاک ہے
مدعی کی عیب گیری سے ہمیں کیا باک ہے
قطعہ تاریخ طبع تصنیف
AUTHORمنور خان غافل
YEAR1872
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER منشی نول کشور، لکھنؤ
AUTHORمنور خان غافل
YEAR1872
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER منشی نول کشور، لکھنؤ
سرورق
بسکہ تھا ہر داغ سوزش برتن رنجور کا
ابر دودہ آسوز ان گر ہوا پر چھاے گا
چھوٹے ہے جو فوارہ خون ہربن مو سے
درد آشنا جہاں میں کوئی مجھ سا کم ہوا
مردے زندہ ہوتے ہیں اعجاز یہ چال کا
مجلس افروز جو شب چہرۂ جانا نہ ہوا
آفت جان نہ فقط یار کا انداز ہوا
رہی قدر شرافت کیا زمانے کا چلن بگڑا
گر خط میں رقم وصف گیسوے بتاں ہوتا
زلفوں سے اسنے کام لیا ہے نقاب کا
ہمیں یہ شب پس دیوار اسکی خواب آیا
ہے زہر حقمیں تیرے دولت کا یہ ذخیرا
کسکی صفاے تن سے نادم ہوا ہے ہیرا
پاے بوسی سے یہ کس گل کی ہے مایوس حنا
بسکہ کی پاے جنوں نے میرے طاقت پیدا
بزم میں واجو نقاب رخ جاناں ہوگا
خط اور زیب عارض جانا نہ ہو گیا
ہیں تیرے گر یہ ناک جہاں دفن خاک میں
مہیا شبنم گل میں ہو آب و دانہ بلبل کا
تب وصف لعل لب کا ترے کچھ بیاں ہوا
ہر عضو بدن ایک سے ہے ایک ترا خوب
نالہ محزوں ہے کسکا ہم نوائے عندلیب
گل ہے عارض تو قد یار درخت
آنے سے میرے گھر کے تمہیں عار ہے عبث
یاد آئے ہیں یہ کسکے پھول سے رخسار سرخ
خط مشکیں یہ نہیں ہے عارض دلدار پر
پڑا ہے عکس کس سیمین بدنکا صحن گلشن پر
تنہا نہ دست غم سے گریباں ہے تار تار
موج سر شک ہو جو نہ زنجیر پاے شمع
روشنی کیا چاہیے ہم تیرہ زدونکو پتنگ
کیونکر یہ تف اشک سے مژگاں میں لگی آگ
چشم خونبار سا برسے نہ کبھو پانی ایک
انتظار یار میں وہ بن گئے نرگس کے پھول
قفس بلبل کا سوئے گلستاں لانے سے کیا حاصل
تیری صفاے پاکو نہ پہونچیگا روے گل
وحشت دل سے جو گھبراتے ہیں ہم
ہوگی شب فراق نہ شوروشغب سے کم
کون کہتا ہے کہ ہم عشق نہاں رکھتے ہیں
بسمل تیغ خون چکاں ہوں میں
کسطرح نالہ کرے بلبل چمن کی یاد میں
ناز ہر گز کرے آئینہ ساز آہن
فرد عصیاں کی سیاہی کا ہمیں کچھ غم نہیں
حرص سے خالی یہاں کوئی بنی آدم نہیں
مبتلا رنج مکافات میں فرزانے ہیں
پیدا برنگ مار اگر دو زباں کروں
بے صرفہ چشم تر سے آنسو بہا دیے ہیں
ہے کسے شوق شہادت میں خیال گردن
کون ہے وہ جو گرفتار علائق یاں نہیں
کوہ و صحرا اک ہماری دم سے اب آباد ہیں
کیں نہ اک دست جنوں نے پیرہن کی دھجیاں
اسی پہ پڑتی ہے آنکھ اپنی نازنینوں میں
اللہ رے شرم حسن کو مجنوں کو دیکھ کر
تراشک خوں سے گوشۂ داماں ہے ان دنوں
مآل کار تعبیر جہاں کا جو خیال آیا
خدا بھی دوست رکھتا ہے نہایت اپنے شیدا کو
فرض جانا اسنے سجدہ آستان یار کو
کافر ہو جسکو اس سے تمنا زیادہ ہو
خط مشکیں چاہیے کیا اس رخ پرنور کو
دست رنگیں سے چھپایا چہرۂ پرنور کو
تونے تربت پہ مری دو نہ گراے آنسو
جذب دل ہی میں کیا خون دل بسمل کو
تحریر اسکی ناز کی عضو تن نہ ہو
وہ جام مے پیے تو مجھے یاں خمار ہو
مرغ دل عشاق کی خاطر نہ نشان ہو
مصلحت رو کو سمجھتا ہوں میں ایمان اس کو
ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ
گھورتی ہے بیطرح تصویر پشت آئینہ
عبث وہ شرمگیں رہتا ہے استبع آنکھونسے
شب جدائی کا مجھ کو کھٹکا زبسکہ روز وصال بھی ہے
اس سراے دہر میں ہر دم مقام و کوچ ہے
نگاہ یار ہمسے آج بے تقصیر پھرتی ہے
چمن کوچہ جاناں سے پر کیاآتی ہے
تجھ سے محبوب سے جس وقت بگڑ جاتی ہے
محفل عشرت بھی خوش آتی نہیں اصلا مجھے
حور کو کہتے ہیں خوش چہر بھلا کس رو سے
چھٹ پنے ہی میں یار آفت ہے
چشمۂ کہسار ہی روتے نہیں ہیں آجتک
کیا لگی ہےآگ میرے نالۂ فریادسے
عجائب اس پری کا پان کھا کر مسکرانا ہے
عرق ٹپکا جہاں اس کی جبیں سے
دے مجھے اک جام ساقی اس مئے پرزور سے
وہ تو کہتا تھا انا الحق اور انا معشوق ہم
وہ ظالم جب کوئی تازہ ستم ایجاد کرتا ہے
تن پر جو گل انداموں کے یہی بدہی پڑی ہے
گولگی ہچکی ہے اور ہے آنکھ پتھرائی ہوئی
نمازی سے فروزاں رخ پرنور نہ ہو جائے
جسکے دلپر ہون لگے ناوک مژگاں کتنے
جھمک اس کی رخ پرنور کی دیکھیں اگر تارے
جسکے نگاہ کی میرے دلپر سنان لگی
اب پس قافلہ جز شوروفغان کیا کیجیے
کیا ہے میں نے بہ داغ دل مضطر کو پنبہ سے
بستر گل ہے جوواں پہلوے جاناں کے تلے
مرجان ہے لب یار ذرا کم نہیں اس سے
نشان رہا نہ مٹے ہم حبا ب وار ایسے
وہ رمز کون سی تھی نہ جو سر بسر کھلی
شہید نا ز کسی کو جو لالہ رو کرتے
غم نہیں اسکا کوئی شے گر بنے اور ٹوٹ جائے
نے کام قبا سے ہے نہ مطلب کفنی سے
رات کو واجو نقاب رخ دلبر ہو جائے
محفل عشرت بھی خوش آتی نہیں اصلا مجھے
سوز فراق بسکہ ہمارے بدن میں ہے
بیابان محبت سے گزرنا سخت مشکل ہے
باز آو کہیں اب بھی ستانے سے کسی کے
شہادت کے بھی دن حسرت نہ نکلی کچھ مرے دل کی
کام یاں جسکو پرا ہے چشم وزلف یار سے
خط کا مضموں مرے وہ طفل سمجھتا کب ہے
پابند گیسوے سیہ یار ہم ہوے
شب جو گیسوے سیہ سر کی رخ جاناں سے
آئے ہیں تنگ ہم ستم روزگار سے
ٹپکنے پر ہیں قطرات عرق زلف معنبر سے
ہم فقیروں کا بدن آلودگی سے پاک ہے
مدعی کی عیب گیری سے ہمیں کیا باک ہے
قطعہ تاریخ طبع تصنیف
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔