سر ورق
شناس نامہ
سچائی کااعتراف
خاندان
بیان میرٹھی
فرقانی کے خاندان کا شجرہ
ولادت
شاعری کی ابتدا
جلوۂ طور کی ادارت
کال کوٹھری
طوطیِ ہند کا اجرا
لسان الملک کا اجرا
طوفان
سرسید کی تحریک سے دلچسپی
وفات
شخصیت
تصانیف
تلامذہ
شاعری
حواشی
دیوان بیان
بہارِ حمد سے دیواں ہے گلزارِ ارم میرا
کوڑا ہے ، عکس گیسوے مشکینِ یار کا
شعلہ ہے، مہر جس کے دم سبحہ یار کا
کھٹکا نہیں دل کی بستگی کا
فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
نعش پہ شادی کے سبب رو گیا
خدنگ اور پھر اس شوخ کی نظر کا سا
کس کو شوقِ جلوہ آرائی ہوا
دل کے سوا کہاں ہے مقر، تیرے تیر کا
سر شوریدہ، پائے دشت پیما شامِ ہجراں تھا
اک صفرِ انتخاب رہا مہر کیا رہا
طوق لپٹا ہوا گردن سے رہا
وہ ہوا بیمار واں، اور یاں میں اچھا ہو گیا
خود ہے نیاز و ناز کو لپکا نمود کا
اشکِ خونیں کبھی تھمنے نہ دیا
کھلا ہے جلوۂ پنہاں سے از بس چاک و حشت کا
یار پہلو میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
آلودۂ طلب، ارنی گوئے طور تھا
ان کا منجملۂ اربابِ وفا ہوجانا
کلیم، اوجِ محمد کا ہم عناں کیسا
کب ہوا وصل اس ستمگر کا
اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
تھک کے لیٹا تھا لحد میں شورِ محشر لے چلا
چراغِ حسن ہے روشن کسی کا
صرفِ فشار کنبہ کنارِ بتاں ہے اب
اے چرخ سرپٹک کہ میں ناگہہ مراہوں آج
دلِ آرزو مندیِ جاں عبث
جہاں میں لوں نہ مزے کس طرح جناں کی طرح
ہو جس طرح شراب سے، جامِ شراب سرخ
نہ کمر ملتی ہے قاتل کی، دہن کا نہ پتہ
یہ میں کہوں گا فلک پہ جاکر زمیں سے آیا ہوں تنگ آکر
نظر جو آیا نظیر اپنا تو آنکھیں آئینہ کو دکھا کر
خاک کرتی ہے، برنگِ چرخِ نیلی فام رقص
نگارِ دیوانِ حشر کیوں ہو نہ مطلع آفتاب عارض
کی غرض میں ن دلترِ الفت مگر غلط
کہتی ہے کس کا زبانِ حال سے افسانہ شمع
غمزہ معشوق، مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
گلگشت تنگ عشق ہیں گلزار کی طرف
خوں بہانے کے ہیں ہزار طریق
ہوا کو بار کب ہوتا ہے اس کافر کے مسکن تک
ہاں لکدکوب زمیں ہے، تو عناں ریز فلک
مثلِ حبابِ بحر نہ اتنا اچھل کے چل
بے شرم و حیا، صورتِ دشمن تو نہیں ہم
صبح قیامت آئے گی، کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
چھپا لو نوکِ مژگاں گوشۂ زلفِ معنبری میں
بیٹھے رہیں پردہ میں تعلق نہ اٹھائیں
نفسِ شریر شبہہ پہ ہے، کیفِ شباب میں
ہیں چرخ کس کے اشک کے قطرے سحاب میں
کیا تشہیر تعذیر تصور شامِ فرقت میں
گوہر مقصد ملے، گر چرخِ مینائی نہ ہو
روتی ہے شبنم کہ نیرنگ جہاں کچھ بھی نہیں
اگر نالے اٹھا لیتے نہ سر پر چرخ گرداں کو
نہ ڈھیلے کی طرح ٹھکرایئے اس نور گیہاں کو
دیا دل کو، سویدائے نہاں کو
گماں کیا کیا نہ آئے بدگماں کو
بدلنے، رنگ، سکھلائے، جہاں کو
زمیں سے کیا تعلق ہے زماں کو
میدانِ جلوہ ہے ترے حسن و ضیا کے ہاتھ
ادادانِ فسوں کاری، خماریں چشم، قاتل ہے
سیہ روزی سے میری چرخ اسیر بند مشکل ہے
کئے آنے میں اس نے بھی بہانے
گرد پھرتے ہیں اس یگانے کے
ترا کشتہ اٹھایا اقربا نے
ڈھنگ، بے ڈھنگ ہیں زمانے کے
فتنے اس فتنہ گر کے قامت کے
گیا زیرِ فلک باغ جناں سے
چلی ہیں آرزوئیں ساتھ یاں سے
آئینہ ہم دکھا نہیں سکتے
بروز حشر، ارمانِ دلِ بسمل نکلتا ہے
آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
کسی خورشید قیامت نے نظر کی ہوتی
کہا چشمِ تر کو نئی سوجھتی ہے
نشانِ جادۂ الفت، نہ تھا کم، نقشِ مسطر سے
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
سیاہی غیر کے منہ سے چھڑی ہے
وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
یہ تعمیر کہن ہم سے کھڑی ہے
دل اچکے گی کہ بکھری ہے اڑی ہے
جان دی بخش دئے گنجِ فراواں تونے
جب کہا المدد اے شافعِ عصیاں، تونے
تہمت قلت مٹانے سے نہیں جانے کی
گھبرا کے جہاں سے یہ ستم کش ترے گھر جائے
متفرقات
قصیدہ در مدح حضرت علی
قصائد
قصیدہ در مدح جنرل محمد اعظم الدین خاں
قصیدہ در مدح نواب علی مراد خاں بہادر
قصیدہ در مدح مہاراجہ راج کنوار بہادر
در مدح حفظ الکریم
مثنوی در صفتِ انبہ
مثنویات
جرمانۂ آفتاب
نعت افتخار دنیا و دیں چراغِ آسمان و زمیں میں حضرت خاتم المرسلین
نفی غیر کا تقاضا، جلوۂ ذات کی تمنا، پردۂ ماسوا ماسوا کا لقب، لمعۂ توحید کی طلب
آفتاب کی طرف خطاب اور آفتاب پرستی کا عتاب
آفتاب کا جواب اور گردشِ تقدیر کے اسباب
آفتاب کا اظہار اپنی فروتنی کا اقرار
ایک ہندو کی کہانی اور آفتاب پر تیر زبانی
قاضیِ اسلام کی حکایت اور اہل اسلام کی شکایت
مطلب کی طرف بازگشت اور ہندو کی سرگزشت
آفتاب کی فضیحت اور آفتاب پرستوں کو نصیحت
کتاب کا خاتمہ
تضمینات
تضمین برغزل عظیمائے نیشاپوری
تضمین برغزل ناسخ لکھنوی
تضمین برغزل خود
تضمین بر غزل مرزا غالب
تضمین بر غزل حکیم مولا بخش قلق میرٹھی
تضمین بر مطلع رند لکھنؤی
رباعیات
قطعات
قاتل سے تنگ آکے کہا میں نے ایک روز
مجھے جب کاٹ کرگردن وہ قاتل ریگ پر ڈالے
گر ادھر کو ہووے گزر ترا تو یہ عرض کیجیو قاصدا
میرے محسن نے جو بھیجا ہے مجھے کوزۂ قند
روبرو داورِ محشر کے ہم آتے جاتے
خداوند بچوں کے احساں سے اتری
ہاں تیرے جوشِ خاطر رنگیں سے اے شکن
تاریخ وفات حضرت واجد علی شاہ فردوس آرامگاہ
تاریخ وفات جناب مولوی یٰسین صاحب
قطعات تاریخ
قطعہ تاریخ وفات عزیزی محمد سلطان
قطعہ تاریخ وفات بابو محمد علی صاحب تحصیلدار علی گڑھ
قطعۂ تاریخ وفات میر اولاد علی صاحب میرٹھ
قطعہ تاریخ تولد فرزند ڈاکٹر سید حسین صاحب لال کرتی میرٹھ
قطعہ تاریخ تولد فرزند ڈاکٹر خواب داد خاں صاحب
قطعہ تاریخ مبارک باد بر صحت و شفا
قطعہ تاریخ تولد فرزند منشی احسان عظیم صاحب
قطعہ تاریخ بر عطائے خطاب
مبارک باد
برتولید فرزندا رجمند منشی سید محمد صاحب
بر عطائے خطاب نواب اسد اللہ خان
نوحہ: بر وفات برادرِ عزیز مولوی سید محمد
بر وفات بابو محمد زکریا
بروفات دختر منشی بالسروپ شکن
سہرا
جلوۂ شان کریمی کا ہے مظہر سہرا
کیوں نہ ہو جلوۂ فزاے رخ انور سہرا
لطف خفی کا مقنع نور جلی کا سہرا
YEAR2007
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER सलमान फ़ाइन प्रिन्टर्स, नागपुर
YEAR2007
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER सलमान फ़ाइन प्रिन्टर्स, नागपुर
سر ورق
شناس نامہ
سچائی کااعتراف
خاندان
بیان میرٹھی
فرقانی کے خاندان کا شجرہ
ولادت
شاعری کی ابتدا
جلوۂ طور کی ادارت
کال کوٹھری
طوطیِ ہند کا اجرا
لسان الملک کا اجرا
طوفان
سرسید کی تحریک سے دلچسپی
وفات
شخصیت
تصانیف
تلامذہ
شاعری
حواشی
دیوان بیان
بہارِ حمد سے دیواں ہے گلزارِ ارم میرا
کوڑا ہے ، عکس گیسوے مشکینِ یار کا
شعلہ ہے، مہر جس کے دم سبحہ یار کا
کھٹکا نہیں دل کی بستگی کا
فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
نعش پہ شادی کے سبب رو گیا
خدنگ اور پھر اس شوخ کی نظر کا سا
کس کو شوقِ جلوہ آرائی ہوا
دل کے سوا کہاں ہے مقر، تیرے تیر کا
سر شوریدہ، پائے دشت پیما شامِ ہجراں تھا
اک صفرِ انتخاب رہا مہر کیا رہا
طوق لپٹا ہوا گردن سے رہا
وہ ہوا بیمار واں، اور یاں میں اچھا ہو گیا
خود ہے نیاز و ناز کو لپکا نمود کا
اشکِ خونیں کبھی تھمنے نہ دیا
کھلا ہے جلوۂ پنہاں سے از بس چاک و حشت کا
یار پہلو میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
آلودۂ طلب، ارنی گوئے طور تھا
ان کا منجملۂ اربابِ وفا ہوجانا
کلیم، اوجِ محمد کا ہم عناں کیسا
کب ہوا وصل اس ستمگر کا
اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
تھک کے لیٹا تھا لحد میں شورِ محشر لے چلا
چراغِ حسن ہے روشن کسی کا
صرفِ فشار کنبہ کنارِ بتاں ہے اب
اے چرخ سرپٹک کہ میں ناگہہ مراہوں آج
دلِ آرزو مندیِ جاں عبث
جہاں میں لوں نہ مزے کس طرح جناں کی طرح
ہو جس طرح شراب سے، جامِ شراب سرخ
نہ کمر ملتی ہے قاتل کی، دہن کا نہ پتہ
یہ میں کہوں گا فلک پہ جاکر زمیں سے آیا ہوں تنگ آکر
نظر جو آیا نظیر اپنا تو آنکھیں آئینہ کو دکھا کر
خاک کرتی ہے، برنگِ چرخِ نیلی فام رقص
نگارِ دیوانِ حشر کیوں ہو نہ مطلع آفتاب عارض
کی غرض میں ن دلترِ الفت مگر غلط
کہتی ہے کس کا زبانِ حال سے افسانہ شمع
غمزہ معشوق، مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
گلگشت تنگ عشق ہیں گلزار کی طرف
خوں بہانے کے ہیں ہزار طریق
ہوا کو بار کب ہوتا ہے اس کافر کے مسکن تک
ہاں لکدکوب زمیں ہے، تو عناں ریز فلک
مثلِ حبابِ بحر نہ اتنا اچھل کے چل
بے شرم و حیا، صورتِ دشمن تو نہیں ہم
صبح قیامت آئے گی، کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
چھپا لو نوکِ مژگاں گوشۂ زلفِ معنبری میں
بیٹھے رہیں پردہ میں تعلق نہ اٹھائیں
نفسِ شریر شبہہ پہ ہے، کیفِ شباب میں
ہیں چرخ کس کے اشک کے قطرے سحاب میں
کیا تشہیر تعذیر تصور شامِ فرقت میں
گوہر مقصد ملے، گر چرخِ مینائی نہ ہو
روتی ہے شبنم کہ نیرنگ جہاں کچھ بھی نہیں
اگر نالے اٹھا لیتے نہ سر پر چرخ گرداں کو
نہ ڈھیلے کی طرح ٹھکرایئے اس نور گیہاں کو
دیا دل کو، سویدائے نہاں کو
گماں کیا کیا نہ آئے بدگماں کو
بدلنے، رنگ، سکھلائے، جہاں کو
زمیں سے کیا تعلق ہے زماں کو
میدانِ جلوہ ہے ترے حسن و ضیا کے ہاتھ
ادادانِ فسوں کاری، خماریں چشم، قاتل ہے
سیہ روزی سے میری چرخ اسیر بند مشکل ہے
کئے آنے میں اس نے بھی بہانے
گرد پھرتے ہیں اس یگانے کے
ترا کشتہ اٹھایا اقربا نے
ڈھنگ، بے ڈھنگ ہیں زمانے کے
فتنے اس فتنہ گر کے قامت کے
گیا زیرِ فلک باغ جناں سے
چلی ہیں آرزوئیں ساتھ یاں سے
آئینہ ہم دکھا نہیں سکتے
بروز حشر، ارمانِ دلِ بسمل نکلتا ہے
آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
کسی خورشید قیامت نے نظر کی ہوتی
کہا چشمِ تر کو نئی سوجھتی ہے
نشانِ جادۂ الفت، نہ تھا کم، نقشِ مسطر سے
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
سیاہی غیر کے منہ سے چھڑی ہے
وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
یہ تعمیر کہن ہم سے کھڑی ہے
دل اچکے گی کہ بکھری ہے اڑی ہے
جان دی بخش دئے گنجِ فراواں تونے
جب کہا المدد اے شافعِ عصیاں، تونے
تہمت قلت مٹانے سے نہیں جانے کی
گھبرا کے جہاں سے یہ ستم کش ترے گھر جائے
متفرقات
قصیدہ در مدح حضرت علی
قصائد
قصیدہ در مدح جنرل محمد اعظم الدین خاں
قصیدہ در مدح نواب علی مراد خاں بہادر
قصیدہ در مدح مہاراجہ راج کنوار بہادر
در مدح حفظ الکریم
مثنوی در صفتِ انبہ
مثنویات
جرمانۂ آفتاب
نعت افتخار دنیا و دیں چراغِ آسمان و زمیں میں حضرت خاتم المرسلین
نفی غیر کا تقاضا، جلوۂ ذات کی تمنا، پردۂ ماسوا ماسوا کا لقب، لمعۂ توحید کی طلب
آفتاب کی طرف خطاب اور آفتاب پرستی کا عتاب
آفتاب کا جواب اور گردشِ تقدیر کے اسباب
آفتاب کا اظہار اپنی فروتنی کا اقرار
ایک ہندو کی کہانی اور آفتاب پر تیر زبانی
قاضیِ اسلام کی حکایت اور اہل اسلام کی شکایت
مطلب کی طرف بازگشت اور ہندو کی سرگزشت
آفتاب کی فضیحت اور آفتاب پرستوں کو نصیحت
کتاب کا خاتمہ
تضمینات
تضمین برغزل عظیمائے نیشاپوری
تضمین برغزل ناسخ لکھنوی
تضمین برغزل خود
تضمین بر غزل مرزا غالب
تضمین بر غزل حکیم مولا بخش قلق میرٹھی
تضمین بر مطلع رند لکھنؤی
رباعیات
قطعات
قاتل سے تنگ آکے کہا میں نے ایک روز
مجھے جب کاٹ کرگردن وہ قاتل ریگ پر ڈالے
گر ادھر کو ہووے گزر ترا تو یہ عرض کیجیو قاصدا
میرے محسن نے جو بھیجا ہے مجھے کوزۂ قند
روبرو داورِ محشر کے ہم آتے جاتے
خداوند بچوں کے احساں سے اتری
ہاں تیرے جوشِ خاطر رنگیں سے اے شکن
تاریخ وفات حضرت واجد علی شاہ فردوس آرامگاہ
تاریخ وفات جناب مولوی یٰسین صاحب
قطعات تاریخ
قطعہ تاریخ وفات عزیزی محمد سلطان
قطعہ تاریخ وفات بابو محمد علی صاحب تحصیلدار علی گڑھ
قطعۂ تاریخ وفات میر اولاد علی صاحب میرٹھ
قطعہ تاریخ تولد فرزند ڈاکٹر سید حسین صاحب لال کرتی میرٹھ
قطعہ تاریخ تولد فرزند ڈاکٹر خواب داد خاں صاحب
قطعہ تاریخ مبارک باد بر صحت و شفا
قطعہ تاریخ تولد فرزند منشی احسان عظیم صاحب
قطعہ تاریخ بر عطائے خطاب
مبارک باد
برتولید فرزندا رجمند منشی سید محمد صاحب
بر عطائے خطاب نواب اسد اللہ خان
نوحہ: بر وفات برادرِ عزیز مولوی سید محمد
بر وفات بابو محمد زکریا
بروفات دختر منشی بالسروپ شکن
سہرا
جلوۂ شان کریمی کا ہے مظہر سہرا
کیوں نہ ہو جلوۂ فزاے رخ انور سہرا
لطف خفی کا مقنع نور جلی کا سہرا
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।