سرورق
فہرست غزلیات دیوان اظفری
مقدمۂ دیوان اظفری
ہتیلے! ھت نے تیری مار ڈالا
انتخاب دیوان جدید ، میرزا اظفری دہلوی
شکر و حمد ایزدی آرایش عنواں ہوا
متوالے آپ اپنے کچھ بھی سنبھالتے ہیں
نکالے تم اب تو عجب خو نرالی
دھید مژدہ مگرئید دید حال مرا
جان ! آبر میں کہ پھر کچھ غم و وسواس نہیں
باغ کیا جس میں کہ برگ و تمر و تاک نہیں
کہیں دیکھا نہ تجھ سا میزباں کو
کیا ہے تو نے جان جہاں ! جہاں تسخیر
غبار دل میں بھرا کرکری سلام علیک
گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر
موتے ہیں آشتاب تر ظالم
اسکی صورت کو دیکھ کر بھولے
کہ نمود است رو بخواب مرا
سوز شمع ہجر سے شب جل گئے
گرم جوشی سے اوائل تو وہ کچھ گل مل لے
خونے تیری تو ہمیں چوپت کیا
تم عجب آج ہم سے چھل بل کر گئے
جب کہ زلف اس کی گلے کھا بل پڑی
سوچ میں تیرے سنا رات جو کھتکا پتکا
دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے
کون کہتا ہے کہ تونے ہمیں ہت کر مارا
شتابی اپنے دیوانے کو کو بند
گل عشاق عجب رنگ کی بولے نکلے
شیشہ چھلک کے مے کا متوالے اب تو چھی جا
تم تو دستک دے ہمارے در اپر جاتے رہے
شعلہ ساں سر تا قدم جلنے لگا
بھوئیں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
نت بولتے اور ہنستے ہر حال خوشی رہئے
تیری تیغ ابرو کی تک سامنے کو دیکھیں تو
ہے کہتا کہ تو زہر گھولا تو دیکھا
خزاں تنہا نہ سیر بوستاں کو جا بگاڑ آئی
جو نصیحت کی اسے نالا میاں
سینے کا اب تک ہے زخم آلا میاں !
جس گلی میں پاؤں تو ڈالا میاں
رنگ مے اوروں پہ تم ڈالا میاں
تالا بالا دے ہمیں بھلا گئے
جاے ہے ابرو کماں پیستا دنداں کھا پان
جو کچھ دیکھ مانگا تو دم کھا گئے
ارے بنسی والے مرا جی چلا
دیکھو بے جا آج آ وہ لڑ گیا
ہاتھ اپنے ان گلوں سے اٹھاؤ اجی سنا
ملتے ہی پھر گالیوں کے سر پہ گولے پڑ گئے
تو عاشقوں کے تئیں جب سے قتل ناز کہا
یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں
تو باتوں میں بگڑ جاتا ہے مجھ سے
جہاں کے خوب رویاں یاں خجل ہیں
دیکھ اپنے مائلوں کو کہ ہیں دل جلے پڑے
پورا ہی وار آج تو ہم پہ ترا چل گیا
منظور دل کا لینا تھا جس نہ تس ادا سے
تم کھل رہے تھے غیر سے چھاؤں تلے کھڑے
نم اشک آنکھوں سے ڈھلنے لگا ہے
آتے آتے طرف میرے مڑ کے پھر کدھر چلے
الٰہی مرا جلد کر پار بیڑا
روپ کچھ آن بان میں کچھ ہے
تری دید کو تک اویرا سویرا
سکھایا تجھ کو کس نے آتے جاتے مجھ سے لڑ جاوے
بدی شرط اب دیکھیے کون جیتے
آؤ جی جیتے جی مرے آؤ
تک ھل مل کے ہم ساتھ کھیلو تو جی
ہمیں چھوڑ کدھر سدھارے پیارے
تیرے تیور ہیں کدھب آج ہیں تارے پیارے
ہے جل جب تلک گنگ و جمنا ندی کا
رکھتے زور آن بان ہو جانی
میں کس پیچ یا الٰہی پڑا
سادے ترکوں سے مکروفن نہ کرو
یار جوں چاہے ووں ستانے دو
جی میں کیا کیا مری اماھا تھا
جانی ! کچھ مجھ کو جانتے بھی ہو
چھیڑوں میں اس کو منہ چرانے دو
جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو
مرغ دل پھاند سے میں اس زلف کے لالا مارا
سارے چھل بل ترے میں جانے ہیں
میرا آنسو گر ایک ڈھل جاوے
ترا یہ چوچلا بے وقت کا یہاں کس کو بھاتا ہے
اک ذرا سی تمہیں کچھ لاج نہ آئی پیارے
ڈھولکی ڈھمڈھمی خنجری بھی بجانی جانی
محبت کی پرتیت تم اب ڈبوئی
غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو
ہیں جانے بوجھے یار ہم ، ہم ساتھ انجانی نہ کر
مہ رو نہ ہو اور چاندنی وہ رات ہے کس کام کی
ایک برچھی سے مار جاتے ہو
دیکھ یاروں کو نہیں خوب چکائی دینا
ہے ڈھنڈورا یہ بجا تا مہ و ماہی دینا
غیر کو چاہو اور ہم کو نہ نظر بھر دیکھو
عاشق صادق ہمیں پہچانیے
بارک اللہ میں ترے حسن کی کیا بات کہوں
کر بادہ ڈال ساقی ! میرا ایاغ روشن
دل ترا سنگ ہوا جان خدا خیر کرے
میرا اس کا بادے نروالا ہوا
دیکھیں اب چل کے باغ کے بھڑکے
تو تو نادان ہو نہیں سکتا
ترے دانتوں کی دیکھی آبداری
قرباں گیا میں بھوئیوں کی تیری کمان کا
سینے سے دل ہی نکلا پڑتا ہے
کہا کس نے کہ تم یہ وو نہ بولو
جلد جھمکا دکھا جوانی کا
بھڑکی دوں عشق کی بہم اچھی
ترے بالوں پہ ہالا واد ڈالا
سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں
جو تیغ ابرواں سے مل گیا ہو
یہ دل مجنوں صفت اب ہو رہا ہے
تمہیں سوگند مری جان کی ادھر دیکھو
ہمیں جان ! تو جان پہچان مارا
ترے سامنے آج ہو کس کا وو ہے
رہے یاں یہ صرف بے جا بھلا جی
مصر دل گو مرا اجڑا ہوا تم شاد رہے
تمہارا عشق تو (ہم) بندہ درگاہ رکھتے ہیں
ہم اور تم میں محبت کی جب سے راہ پڑی
جو موت آوے تو جا کوے یار میں مرئے
بکھیرے منہ پہ زلفیں رات آوے
رباعی
آنکھ میں زلف کی تصویر دھری رہتی ہے
دل پوچھو تو کس شمع کا پروانہ ہوا
سرورق
فہرست غزلیات دیوان اظفری
مقدمۂ دیوان اظفری
ہتیلے! ھت نے تیری مار ڈالا
انتخاب دیوان جدید ، میرزا اظفری دہلوی
شکر و حمد ایزدی آرایش عنواں ہوا
متوالے آپ اپنے کچھ بھی سنبھالتے ہیں
نکالے تم اب تو عجب خو نرالی
دھید مژدہ مگرئید دید حال مرا
جان ! آبر میں کہ پھر کچھ غم و وسواس نہیں
باغ کیا جس میں کہ برگ و تمر و تاک نہیں
کہیں دیکھا نہ تجھ سا میزباں کو
کیا ہے تو نے جان جہاں ! جہاں تسخیر
غبار دل میں بھرا کرکری سلام علیک
گرہ جو کام میں ڈالے ہے پنجۂ تقدیر
موتے ہیں آشتاب تر ظالم
اسکی صورت کو دیکھ کر بھولے
کہ نمود است رو بخواب مرا
سوز شمع ہجر سے شب جل گئے
گرم جوشی سے اوائل تو وہ کچھ گل مل لے
خونے تیری تو ہمیں چوپت کیا
تم عجب آج ہم سے چھل بل کر گئے
جب کہ زلف اس کی گلے کھا بل پڑی
سوچ میں تیرے سنا رات جو کھتکا پتکا
دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے
کون کہتا ہے کہ تونے ہمیں ہت کر مارا
شتابی اپنے دیوانے کو کو بند
گل عشاق عجب رنگ کی بولے نکلے
شیشہ چھلک کے مے کا متوالے اب تو چھی جا
تم تو دستک دے ہمارے در اپر جاتے رہے
شعلہ ساں سر تا قدم جلنے لگا
بھوئیں چڑھی ہیں اور ہے تیور جھکا ہوا
نت بولتے اور ہنستے ہر حال خوشی رہئے
تیری تیغ ابرو کی تک سامنے کو دیکھیں تو
ہے کہتا کہ تو زہر گھولا تو دیکھا
خزاں تنہا نہ سیر بوستاں کو جا بگاڑ آئی
جو نصیحت کی اسے نالا میاں
سینے کا اب تک ہے زخم آلا میاں !
جس گلی میں پاؤں تو ڈالا میاں
رنگ مے اوروں پہ تم ڈالا میاں
تالا بالا دے ہمیں بھلا گئے
جاے ہے ابرو کماں پیستا دنداں کھا پان
جو کچھ دیکھ مانگا تو دم کھا گئے
ارے بنسی والے مرا جی چلا
دیکھو بے جا آج آ وہ لڑ گیا
ہاتھ اپنے ان گلوں سے اٹھاؤ اجی سنا
ملتے ہی پھر گالیوں کے سر پہ گولے پڑ گئے
تو عاشقوں کے تئیں جب سے قتل ناز کہا
یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں
تو باتوں میں بگڑ جاتا ہے مجھ سے
جہاں کے خوب رویاں یاں خجل ہیں
دیکھ اپنے مائلوں کو کہ ہیں دل جلے پڑے
پورا ہی وار آج تو ہم پہ ترا چل گیا
منظور دل کا لینا تھا جس نہ تس ادا سے
تم کھل رہے تھے غیر سے چھاؤں تلے کھڑے
نم اشک آنکھوں سے ڈھلنے لگا ہے
آتے آتے طرف میرے مڑ کے پھر کدھر چلے
الٰہی مرا جلد کر پار بیڑا
روپ کچھ آن بان میں کچھ ہے
تری دید کو تک اویرا سویرا
سکھایا تجھ کو کس نے آتے جاتے مجھ سے لڑ جاوے
بدی شرط اب دیکھیے کون جیتے
آؤ جی جیتے جی مرے آؤ
تک ھل مل کے ہم ساتھ کھیلو تو جی
ہمیں چھوڑ کدھر سدھارے پیارے
تیرے تیور ہیں کدھب آج ہیں تارے پیارے
ہے جل جب تلک گنگ و جمنا ندی کا
رکھتے زور آن بان ہو جانی
میں کس پیچ یا الٰہی پڑا
سادے ترکوں سے مکروفن نہ کرو
یار جوں چاہے ووں ستانے دو
جی میں کیا کیا مری اماھا تھا
جانی ! کچھ مجھ کو جانتے بھی ہو
چھیڑوں میں اس کو منہ چرانے دو
جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو
مرغ دل پھاند سے میں اس زلف کے لالا مارا
سارے چھل بل ترے میں جانے ہیں
میرا آنسو گر ایک ڈھل جاوے
ترا یہ چوچلا بے وقت کا یہاں کس کو بھاتا ہے
اک ذرا سی تمہیں کچھ لاج نہ آئی پیارے
ڈھولکی ڈھمڈھمی خنجری بھی بجانی جانی
محبت کی پرتیت تم اب ڈبوئی
غیروں کے ساتھ گاتے جاتے ہو
ہیں جانے بوجھے یار ہم ، ہم ساتھ انجانی نہ کر
مہ رو نہ ہو اور چاندنی وہ رات ہے کس کام کی
ایک برچھی سے مار جاتے ہو
دیکھ یاروں کو نہیں خوب چکائی دینا
ہے ڈھنڈورا یہ بجا تا مہ و ماہی دینا
غیر کو چاہو اور ہم کو نہ نظر بھر دیکھو
عاشق صادق ہمیں پہچانیے
بارک اللہ میں ترے حسن کی کیا بات کہوں
کر بادہ ڈال ساقی ! میرا ایاغ روشن
دل ترا سنگ ہوا جان خدا خیر کرے
میرا اس کا بادے نروالا ہوا
دیکھیں اب چل کے باغ کے بھڑکے
تو تو نادان ہو نہیں سکتا
ترے دانتوں کی دیکھی آبداری
قرباں گیا میں بھوئیوں کی تیری کمان کا
سینے سے دل ہی نکلا پڑتا ہے
کہا کس نے کہ تم یہ وو نہ بولو
جلد جھمکا دکھا جوانی کا
بھڑکی دوں عشق کی بہم اچھی
ترے بالوں پہ ہالا واد ڈالا
سمجھ گھر یار کا میں شہ نشین دل کو دھوتا ہوں
جو تیغ ابرواں سے مل گیا ہو
یہ دل مجنوں صفت اب ہو رہا ہے
تمہیں سوگند مری جان کی ادھر دیکھو
ہمیں جان ! تو جان پہچان مارا
ترے سامنے آج ہو کس کا وو ہے
رہے یاں یہ صرف بے جا بھلا جی
مصر دل گو مرا اجڑا ہوا تم شاد رہے
تمہارا عشق تو (ہم) بندہ درگاہ رکھتے ہیں
ہم اور تم میں محبت کی جب سے راہ پڑی
جو موت آوے تو جا کوے یار میں مرئے
بکھیرے منہ پہ زلفیں رات آوے
رباعی
آنکھ میں زلف کی تصویر دھری رہتی ہے
دل پوچھو تو کس شمع کا پروانہ ہوا
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔