سرورق
پیش لفظ
مقدور کیا ہو صف خداے علیم کا
گھر ہے مرے دل میں اس بشر کا
جو گدا ہو صنم ترے در کا
افسوس وقت ذبح بھی دامن کشان رہا
سینے میں یاں تم دم ہے ہمارا رکا ہوا
اگر بے گنہ خوں روا ہے کسی کا
انجم تمہیں الفت ابھی کرنا نہیں آتا
نہ تڑپا میں فلک زیروزبر ہوتا تو کیوں ہوتا
چارہ گر زخم جگر کا مرے ٹیسا کیسا
شب کو میرا ساقی مہ رو جو میخواروں میں تھا
کسی پہلو دل کو قرار نہیں مرے یار سے کوئی جا کہنا
جو تیرے کوچے میں اس کا مزار بن جاتا
جو دھونا تیرا دامن کا نہ ہو کچھ کار گر تو کیا
شہید ناز کو مٹی جو قاتلا دینا
رنگ بدلا ہے کئی دن سے مزاج یار کا
ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ تم اپنے اے لالہ فام آدھا
حرف مطلب زبان پہ لانا سکا
جو زمیں نام نکلتا ہی رہا
سربالیں جو وہ کھولے ہوئے گیسو ہوتا
متشر گر اپنی آہوں کا دھواں ہو جائیگا
آہ و زاری میں مری پیدا اثر ہونے لگا
مجھ کو بسمل نہ چھوڑ جانا تھا
تیری فرقت میں ترے وحشی نے گرنالہ کیا
ہے طرز جفا میں دلبری کا
اگر دم بھر کوآجاتا تو کیا تھا
راز الفت کا جتا کیوں نہ دیا
درد دل بار بار کیا کہنا
عہد وپیمان کو نہ یوں دل سے بھایا ہوتا
اے دل ناداں یہ تونے کیا کیا
سینے سے اس پری کے دوپٹہ جو ہٹ گیا
آنکھ اٹھا کر جدھر جدھر دیکھا
خط نکل آیا ہے گرد رخ انور کیسا
ہوا ہے ہم کو تو اے جان اب یہ ڈر پیدا
گر گھڑی بھر کو کبھی درد جگر کم ہو گیا
بحر الفت کا نہیں دل کو کنارا ملتا
کیا جن چن کے ٹکڑے ٹکڑے اک اک استخواں میرا
دوست اپنا نہ یار ہے اپنا
سولی پہ خیال قد دلدار نے کھینچا
جو نہ آتا وہ یار کیا ہوتا
عرش اعلی پہ ہے دماغ اپنا
اٹھ کے پہلو سے مرے آپکو جانا کیا تھا
سینے سے لپٹے مرے وہ دیکھ کر کالی گھٹا
کبھی آکے میرے مزار پر کوئی پھول بھی نہ چڑھا دیا
یہ نہیں وصل کی تدبیر نے پلٹا کھایا
صبر کو ہاتھوں سے بسمل کیوں دیا
الٰہی خیر ہو پھر یاد آیا
نہیں اچھا دکھانا دل کسی کو
یوں تو کہنے کوکیا نہیں ہوتا
دسترس نالۂ پا شور جو پایا کرتا
پھیرا گلے پر بارہا لیکن نہ اسپر بھی کٹا
وفور الفت میں ان بتوں کو بیان کریں کیا کہ کیا جانا
فریب میں ان بتوں کے آکر رہا نہ دنیا کا میں نہیں کا
اگر بالفرض برسا ابرتر دوتین دن برسا
نہیں بھاتا اسے کوئی ہزاروں پر جو مائل تھا
ہے زیر ابر حسن عجب ماہتاب کا
تری فرقت میں ان دیدوں نے طوفان کیا برپا
غم ہجر تیرا اے جان جو نہ غمگسار ہوتا
تمہیں مطلب ہم کو طالب دیدار ہونا تھا
خدا حافظ ہے تیرے ان لگاوٹ کے اشاروں کا
کیا حسد دل آماج گاہ کا کیا
نہ کسی کے عشق میں مرتے ہم نہ کسی کے سر پر خون ہوتا
نگہ یاس سے جس نے مجھے دیکھا ہوگا
جاتے جاتے لاش کو ٹھکرا گیا
مجھے محشر میں ہوتا ہے گر یباں گیر قاتل کا
وہ نظر سے گو کہ نہاں رہا ولے اس کا دل میں خیال تھا
جان دینا بھی محبت میں نہ کچھ کام آیا
سارے عالم میں نور ہے تیرا
جو دیکھا شمع کو دل سوز میرا
ہم کو تو ہی یہ بتلا دے ہم نے کب اصرار ہی کیا
کیوں خود بخود پھری نگہ یار کیا سبب
چین فرقت میں تری ہم کو بھلا آیاکب
تھام دم ذبح جو سینے میں مرادل بیتاب
کیوں مری بات میں ناحق کوئی بولے کیا خوب
نقد جاں دینے کو ہیں جمع خریدار بہت
ردیف تاے فوقانیہ
ہم سے نہ ہوگی ترک وفا یہ اور کسی کو سنائیں آب
دلا تو چاہے اس بت سے مدارات
دل لبھا لیتی ہے عاشق کا تمہاری بات چیت
ردیف تاے ہندی
بیمار سے تیرے نہیں لی جاتی ہے کروٹ
دے ندیتے قریب دم جھٹ پٹ
ردیف ثاے مثلثہ
ردیف جیم
ہے التجا جو وصل بتاں کی خدا سے آج
بدل نظر آتی ہے انکی نظر آج
طوفان سر پہ روز اٹھاتے ہیں جھوٹ سچ
ردیف حاے مہملہ
داغ ہیں دل میں گلستاں کی طرح
بپا ہے خلق میں اندھیر میرے گھر کی طرح
ردیف خاے معجمہ وصل کی کوئی بتاتا نہیں کاہن تاریخ
ردیف دال مہملہ
پہونچ گئی جو مری تابہ آسماں فریاد
چوں آں قاتل براے امتحان شد
دل بھولتا نہیں تری زلف رسا کی یاد
گر انہیں ہے اپنی صورت پر گھمنڈ
گر شب وصل دلا نالہ گلو گیسو شود
ردیف دال ہندی
ہاتھ لگ جائے الٰہی کوئی ایسا تعویذ
ردیف ذال معجمہ
آپ ہم سے جو کیا کرتے ہیں بیکار کمینڈ
شیبہ خنجر قاتل بنا کر
ردیف راے
لطف تو کرتا ہے مجھ پر تو صنم اتنا تو کر
دل جو دکھتے تو نکل جائیں نہ آہیں کیونکر
تم ہی بتلاؤ کوئی دل کو سنبھالے کیونکر
ہوئی وصلت میں لڑائی کیونکر
آسمان چاہ جتائی کیونکر
غش آگیا ہے یار کی تنویر دیکھ کر
کریں بدنام کیوں ناحق ستم کا حال کہہ کہہ کر
دیتا ہے کوئی چاہنے والا بھی غم کو چھوڑ
کبھی انجم اسے ہشیار تو کر
غزل در صنعت ذو بحرین کہ ہر مصر عش دو وزن میدارد
ردیف راے ہندی
میں تو آتا نہیں خطا سے باز
پردہ دار دردے نورانی ہنوز
ردیف زاے معجمہ
ہو نہ میری چشم تر سے شرمسار ابکے برس
ردیف سین مہملہ
گر نہ ہوتا ہمیں وفا کا پاس
بن گئی ہے درد درماں کی ہوس
ردیف شین معجمہ
نہیں ہم کو انجم کسی کی تلاش
ہے دلمیں انکے وصل کی تکرارکی خلش
ردیف صاد مہملہ
پئے گناہ ہے تیری پناہ کی تخصیص
انگو بغل میں دیکھر جاتا نہ ہوتو جاے ہوش
یاں کفر سے غرض ہے نہ اسلام سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
بدلا نہ مجھ فقیر کی تقدیر کا خواص
کبھی لکھتا ہوں میں ان کو اگر خط
ردیف طاے مہملہ
چلے آؤ اگر دم بھر کو تم تو یہ جاتا رہے فی الفور مرض
نہیں ہم کو ساقی کسی کا لحاظ
ردیف ظاے معجمہ
ہم نے تو کی نہ تھی الم و غم سے احتیاط
کچھ ہمارا نہیں کرتے کبھی اغیار لحاظ
ایک دل ہی نہیں الفت کے اثر سے محفوظ
دم رخصت جو ان سے کہکے میں اٹھا خدا حافظ
ردیف عین مہملہ
گر جفا کی نہ وفا مانع
بیوفائی کے لیے گر نہیں پیماں مانع
کس کی بلا کو ہے غرض سیر چمن کو جائے باغ
زخم ہوتے جاتے ہیں چھل چھل کے داغ
ردیف غین معجمہ
لیچلی وحشت بیاباں کی طرف
ردیف فا
ترے ناز تو ہیں اٹھانے کے لایق
کیا ہم نے نہ اپنی جان کا خوف
نہ تھا دل ہمارا کبھی غم سے واقف
ردیف قاف
او دل آزار مرے دل کو دکھایا ناحق
نالۂ دل کو وہ سنکر نکل آیا ناحق
میری جانب ترا تیر نظر آیا ناحق
ردیف کاف
مری کیوں زباں کو کاتا کہ نکر سکون بیان تک
ترے وحشی کے دم تک تھی تری سرکار کی رونق
بیٹھا کریں گے مجھ سے ہٹ کے حضور کب تک
کل تلک جس ناتواں کا تھا گزر گلزار تک
نہ کیا تو نے کبھی وعدہ ملاقات کا ٹھیک
روز تو کرتا ہے ایجاد دنیا ایک سے ایک
مجھ سے رہیگا جدا یار مرا کب تلک
دیکھا کریں گے تم کو ہم گھو رگھور کب تک
ردیف کاف فارسی
میرے آنے سے تمہارے پاس گھبراتے ہیں لوگ
ردیف لام
مرغوب ہے جو صحبت اغیار آجکل
تری جدائی کی اے مسیحا نہیں ہے اب دل کو تاب بالکل
ہم تو ہیں اپنی خطا کے قائل
الٰہی کوئی ہوا کا جھونکا دکھاد ےچہرہ اڑا کے آنچل
ردیف میم
دیکھ کر اس یار کی تنویر ہم
دل تڑپ کر رہ گیا تجھ بن صنم
ردیف نون
جو صبح وصل وہ جانیکا نام لیتے ہیں
ہوش میں جب آسمان آتے ہیں ہم
یوں تو خدا کے فضل سے کہنے کو کیا نہیں
نہ پھندا ہے نہ کوئی پیچ گیسوے مسلسل میں
ادھر تو زندگی سے اپنی ہم اکتا ے جاتے ہیں
وہ چال اٹھکھیلیوں سے چل کر دل وجگر رونڈے ڈالتے ہیں
سیر کو اچھے گئے گلزار میں
دل ہمارا آنسوؤں کو جذب کر سکتا نہیں
پھول جتنے ہیں تمہارے ہارمیں
لگی ہے مسی پان کھائے ہوئے ہیں
خدا یا وہ حرارت دے ہماری آہ سوزاں میں
جوش پر اپنی مستیاں آئیں
کس نے دکھلا دیا خرام ہمیں
سوال کیا کروں تجھ سے گناہگارہوں میں
محو وہ رات کی تکرار ہوئی یا کہ نہیں
حال دل بھی اب تو کچھ اظہار کر سکتا نہیں
صاف ہم تم سے آج کہتے ہیں
نامہ برواقف نہیں دو تیسرا سے کیا کہیں
خدا خدا کرکے آے بھی وہ تو منہ لپٹے پڑے ہوے ہیں
جب سے پہلو میں وہ نگار نہیں
تم جو آتے سر مزا نہیں
بزم میں اول تو مرضی پاؤں دھرنے کی نہیں
آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
یہ نقشے اور یہ انداز دنیا سے نرالے ہیں
دم نہیں دم میں فغاں کیونکر کروں
منتیں تیری صبا کرتے ہیں
جیسے عاشق ترا ہوا ہوں میں
ضیق میں پڑ جائیگی دیکھا گلچین جان
تم سے بیکار دل لگائے کون
ہمیں جان کنی سے مفر ہو تو جانیں
نہ یہ شب ہونے دے برسوں نہ ہونے دے سحربرسوں
تمہارا نام کسے درد صبح وشام نہیں
الٰہی کھپ گئی کس گلبدن کی گات آنکھوں میں
دل سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
آپ کیوں مجھ سے لیتے ہیں قسمیں
ردیف واو
یہ غصہ اور یہ طیش وعتاب ہم سے کیوں
رسائی کا مرے نالوں کی مانع آسماں کیوں ہو
کب کہتا ہوں میں بوسہ تم دے کے چلے جاؤ
کس منہ سے بھلا کہدوں اے یار چلے جاؤ
غم و اندوہ کے مارے کو جلاتے جاؤ
دل خدا وند حسینوں پر کبھی مائل نہ ہو
کب میں کہتا ہوں دل مرا دے تو
قتل پر کیوں ابھی کستے ہو کمر دیکھ تو لو
کیا اظہار مدعا اب تو
لطف ہوگر تو ہو اور میخانہ ہو
آنکھیں اپنی ڈھونڈھتی ہیں یار کے دیدار کو
یہ نہین ممکن کہ تجھ سے ترکہ اپنا چال ہو
آنکھ ہم سے ذرا ملاؤ تو
کارگر کسکے ہوا تیر نظر دیکھیں تو
نہیں کہتا کہ تو آکر بچالے مرنے والوں کو
دل لے کے برائی کرتے ہیں لو اور سنو لو اور سنو
دل پہ وہ شوق سے ہنس ہنس کے گرائیں بجلی
یوں فغاں کر حال دل افشا نہ ہو
آپ نے ظلم ڈھاے کیا کیا کچھ
ردیف ہے
حاصل ہوا فراغ تری اک نظر کے ساتھ
قدر پہلے کچھ نہ جانی تو نے سمجھانیکی آہ
قصور مجھ سے ترا کوئی گر ہوا ہو تو کہہ
رہ جاے کیوں نہ آنسوؤں سے ڈبڈبا کےآنکھ
یوں تو ان آنکھوں سے ہم نے ادبت کہنے کو دنیا دیکھی
آنیکا آپ ہم سے وعدہ جو کر نہ جاتے
عرس وکرسی کی خبرلائے ہیں لانیوالے
جان دینے کا نہیں میرے سوا اور کوئی
انہیں ہو رہے ہیں گماں کیسے کیسے
ستم ایجاد وجفا پیشہ وبیداد گرے
نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے
یہ عشق بتاں غضب نہ ڈھادے
یار بدظن کہیں نہ ہو جائے
خاک میں ہم کو ملا رکھا ہے
آنکھیں آمادہ جو ہیں دریا بہانے کے لیے
زلف بتاں کو کیوں چھیڑو کیا اس میں تمہارا رکھا ہے
چال کیوں چلتے ہو اٹھلائی ہوئی
دل لے کے ہمارا پھرتا ہے یہ کون وتیرہ تیراہے
خوبخود دل ہی بیٹھا جاتا ہے
نمک بیزگر گیری صورت نہ ہوتی
نہ ہوتا جنوں گر محبت نہ ہوتی
اک ذرا پردے سے باہر آیئے
نگہ کیا اور مژہ کیا اے صنم اسکو بھی اسکو بھی
کون سا طرز جفا ہے جو نہیں یاد تجھے
میر بجانب یہ گماں لو واہ وا اچھی کہی
توڑتا ہے دم ترا بیمار اٹھتے اٹھتے
تڑپا کیا دل بھی غم فرقت میں جگر بھی
جب سرشار ترے گیسوے پیچاں دیکھے
تم خفا ہو اے صنم کس واسطے
آنکھ آہوے صیدا فگن ہے
غم ہجر کے گئے دن گزر ہوا آخر اپنا وصال ہی
یاد کس کس کو کیاہے نہیں معلوم مجھے
وصل سے تو جدائی بہتر ہے
جب صفائی نہیں تو پھر کیا ہے
مری جان جدائی نہ ہوگی تو ہوگی
ذرا تو حال دل اے گریہ لب تک آنے دے
میری جانب بھی خدارا دیکھیے
آج کل ایسی ناتوانی ہے
کرے جو چھچھے بلبل ہزار بن تیرے
رہ نجاے کوئی دلمیں ترے ارمان باقی
نہ آج تک تو دلا زور بل قضا کے چلے
زبان کس طرح باز آئے فغاں سے
حیا و شرم کے صدقے ہنسی منہ پر نہیں آتی
کوچے میں گر جگہ نہ ملیگی مزار کی
امید مہر پر اک حسرت دل ہم بھی رکھتے تھے
عضو تقصیر جو ہوتی تو بڑی بات نہ تھی
نالوں کا اذن دے دل ناچار کے لیے
چشم کہتی ہے کہ شرمندہ ہے بارش مجھے
دیکھا نہیں جب سے تجھے اے ماہ لقا ہے
رقیبوں کا تری محفل میں کسدن تھا گزر پہلے
نہ کرنا ذبح اے ظالم مجھے شمشیر سے پہلے
تمہیں خیال ہمارا اگر نہیں نہ سہی
نہ تو گل کوئی نہ بوٹا نظرآتا ہے مجھے
ایک تیری نگاہ کیا بدلی
خدا نے وہ صورت بنائی تمہاری
نہ کرنا کوئی چارہ تو کہ یہ درد جگر جاے
صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے
درد دل بھی سنا نہیں سکتے
جو واقف ہو تم دل کے حالات سے
جنوں ابھی تو گر بیان میں تار باقی ہے
مری آہ بھی پراثر ہوگئی
بطرز دلبری بیداد کیجے
تم جو وعدہ نہ کر گئے ہوتے
اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
عبث وہ تند خو مجھ سے خفا ہے
ہمیں زاہد جو کافر جانتا ہے
ترے ہی سر کی مجھے قسم ہے بیان زیادہ نہ اسمیں کم ہے
چل بسے جو کہ تھے جانے والے
باعث ترک ملاقات بتاؤ تو سہی
آسماں باغ ہے یار گل اندام بھی ہے
خدا جانے وہ یار آئے نہ آئے
دل آفت رسیدہ پر مے بیداد کس نے کی
درد سے مملو ہے جو آواز ہے
باغ عالم کا یہی اسلوب ہے
پاؤں ہم ان کے ایک بار پڑے
غضب لائی ہماری ناتوانی
سرخرو ہوتے مری جان ہم تمہارے سامنے
بیاں جو ان سے کبھی دل کا مدعا کرتے
یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجم جیتا ہے یا مرتا ہے
یہ خون جگر رایگاں ہورہا ہے
اثر آہ کا اب عیاں ہورہا ہے
اگر دم بھی نکل جاے نہ حسرت دل سے نکلے گی
جس پر اپنی جان جاتی ہے وہ دلبر اور ہے
کسی کا نام بڑا ہو کسی کی ذات بڑی
تیری الفت بلا کی ہے
جس ادا کا زمانہ شاکی ہے
دیکھ لو صاحب ادھر نازو ادا سے
بات تھی وہ کون سی جو بہر موسیٰ رہ گئی
شاید ازلطف کند یار نگاہے گاہے
دلم بردی نگار من چہ کردی
لی خبر تو نے نہ قاتل میری
مانا تو کیا کر ستم ایجاد کسی کی
مجھی پر کچھ نہیں موقوف کوچے سے ترے قاتل
دم بھر مری تسکین وہ کر جاتے ہیں کیسے
کہہ تو انجم تجھے ہوا کیا ہے
دل دینے میں اس کو ہمیں کچھ ڈر تونہیں ہے
تم آے تو کچھ درد سے مہلت تو نہیں ہے
درد ہو تو دوا کرے کوئی
داور حشر کے انصاف سے ڈرنے والے
دکھاتا ہے مرا دل یے الف رے
بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے
شال چرخ رہا آسماں تو سر گرداں
کس طرح دیکھیں گے انکو بے حجاب آتے ہوے
اڑیں گے ہوش ساقی کے شراب نابکی صورت
سحر ہے دور مرا رنگ فق ابھی سے ہے
ہمارےخواب میں آیا نہ کیجے
اسی امید پہ دیدوں کی فرش راہ کیا
اس سفلہ روزگار میں آنکھیں کھلی ہوئی
جو بیدرد ہے اسپہ شیدا ہوا ہے
ہم نے مانا کہ ہزاروں ہیں تمہارے شیدا
نکہت صبا تمہاری کبھی لائی بھی نہ تھی
خود بخود عشاق بے مارے ترے مر جاتے ہیں
جان عاشق ہجر میں گھبرا گئی
دوش انجم زپیر فرزانہ
تقریظ از نتائج افکار جناب سید یوسف علی صاحب کاہش لکھنوی۔۔۔
کسی سینے میں درد او رسوزش
ہوے محو نظارہ اہل نظر
قطعۂ دیوان حسرت از جناب شنکر دیال
سرورق
پیش لفظ
مقدور کیا ہو صف خداے علیم کا
گھر ہے مرے دل میں اس بشر کا
جو گدا ہو صنم ترے در کا
افسوس وقت ذبح بھی دامن کشان رہا
سینے میں یاں تم دم ہے ہمارا رکا ہوا
اگر بے گنہ خوں روا ہے کسی کا
انجم تمہیں الفت ابھی کرنا نہیں آتا
نہ تڑپا میں فلک زیروزبر ہوتا تو کیوں ہوتا
چارہ گر زخم جگر کا مرے ٹیسا کیسا
شب کو میرا ساقی مہ رو جو میخواروں میں تھا
کسی پہلو دل کو قرار نہیں مرے یار سے کوئی جا کہنا
جو تیرے کوچے میں اس کا مزار بن جاتا
جو دھونا تیرا دامن کا نہ ہو کچھ کار گر تو کیا
شہید ناز کو مٹی جو قاتلا دینا
رنگ بدلا ہے کئی دن سے مزاج یار کا
ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ تم اپنے اے لالہ فام آدھا
حرف مطلب زبان پہ لانا سکا
جو زمیں نام نکلتا ہی رہا
سربالیں جو وہ کھولے ہوئے گیسو ہوتا
متشر گر اپنی آہوں کا دھواں ہو جائیگا
آہ و زاری میں مری پیدا اثر ہونے لگا
مجھ کو بسمل نہ چھوڑ جانا تھا
تیری فرقت میں ترے وحشی نے گرنالہ کیا
ہے طرز جفا میں دلبری کا
اگر دم بھر کوآجاتا تو کیا تھا
راز الفت کا جتا کیوں نہ دیا
درد دل بار بار کیا کہنا
عہد وپیمان کو نہ یوں دل سے بھایا ہوتا
اے دل ناداں یہ تونے کیا کیا
سینے سے اس پری کے دوپٹہ جو ہٹ گیا
آنکھ اٹھا کر جدھر جدھر دیکھا
خط نکل آیا ہے گرد رخ انور کیسا
ہوا ہے ہم کو تو اے جان اب یہ ڈر پیدا
گر گھڑی بھر کو کبھی درد جگر کم ہو گیا
بحر الفت کا نہیں دل کو کنارا ملتا
کیا جن چن کے ٹکڑے ٹکڑے اک اک استخواں میرا
دوست اپنا نہ یار ہے اپنا
سولی پہ خیال قد دلدار نے کھینچا
جو نہ آتا وہ یار کیا ہوتا
عرش اعلی پہ ہے دماغ اپنا
اٹھ کے پہلو سے مرے آپکو جانا کیا تھا
سینے سے لپٹے مرے وہ دیکھ کر کالی گھٹا
کبھی آکے میرے مزار پر کوئی پھول بھی نہ چڑھا دیا
یہ نہیں وصل کی تدبیر نے پلٹا کھایا
صبر کو ہاتھوں سے بسمل کیوں دیا
الٰہی خیر ہو پھر یاد آیا
نہیں اچھا دکھانا دل کسی کو
یوں تو کہنے کوکیا نہیں ہوتا
دسترس نالۂ پا شور جو پایا کرتا
پھیرا گلے پر بارہا لیکن نہ اسپر بھی کٹا
وفور الفت میں ان بتوں کو بیان کریں کیا کہ کیا جانا
فریب میں ان بتوں کے آکر رہا نہ دنیا کا میں نہیں کا
اگر بالفرض برسا ابرتر دوتین دن برسا
نہیں بھاتا اسے کوئی ہزاروں پر جو مائل تھا
ہے زیر ابر حسن عجب ماہتاب کا
تری فرقت میں ان دیدوں نے طوفان کیا برپا
غم ہجر تیرا اے جان جو نہ غمگسار ہوتا
تمہیں مطلب ہم کو طالب دیدار ہونا تھا
خدا حافظ ہے تیرے ان لگاوٹ کے اشاروں کا
کیا حسد دل آماج گاہ کا کیا
نہ کسی کے عشق میں مرتے ہم نہ کسی کے سر پر خون ہوتا
نگہ یاس سے جس نے مجھے دیکھا ہوگا
جاتے جاتے لاش کو ٹھکرا گیا
مجھے محشر میں ہوتا ہے گر یباں گیر قاتل کا
وہ نظر سے گو کہ نہاں رہا ولے اس کا دل میں خیال تھا
جان دینا بھی محبت میں نہ کچھ کام آیا
سارے عالم میں نور ہے تیرا
جو دیکھا شمع کو دل سوز میرا
ہم کو تو ہی یہ بتلا دے ہم نے کب اصرار ہی کیا
کیوں خود بخود پھری نگہ یار کیا سبب
چین فرقت میں تری ہم کو بھلا آیاکب
تھام دم ذبح جو سینے میں مرادل بیتاب
کیوں مری بات میں ناحق کوئی بولے کیا خوب
نقد جاں دینے کو ہیں جمع خریدار بہت
ردیف تاے فوقانیہ
ہم سے نہ ہوگی ترک وفا یہ اور کسی کو سنائیں آب
دلا تو چاہے اس بت سے مدارات
دل لبھا لیتی ہے عاشق کا تمہاری بات چیت
ردیف تاے ہندی
بیمار سے تیرے نہیں لی جاتی ہے کروٹ
دے ندیتے قریب دم جھٹ پٹ
ردیف ثاے مثلثہ
ردیف جیم
ہے التجا جو وصل بتاں کی خدا سے آج
بدل نظر آتی ہے انکی نظر آج
طوفان سر پہ روز اٹھاتے ہیں جھوٹ سچ
ردیف حاے مہملہ
داغ ہیں دل میں گلستاں کی طرح
بپا ہے خلق میں اندھیر میرے گھر کی طرح
ردیف خاے معجمہ وصل کی کوئی بتاتا نہیں کاہن تاریخ
ردیف دال مہملہ
پہونچ گئی جو مری تابہ آسماں فریاد
چوں آں قاتل براے امتحان شد
دل بھولتا نہیں تری زلف رسا کی یاد
گر انہیں ہے اپنی صورت پر گھمنڈ
گر شب وصل دلا نالہ گلو گیسو شود
ردیف دال ہندی
ہاتھ لگ جائے الٰہی کوئی ایسا تعویذ
ردیف ذال معجمہ
آپ ہم سے جو کیا کرتے ہیں بیکار کمینڈ
شیبہ خنجر قاتل بنا کر
ردیف راے
لطف تو کرتا ہے مجھ پر تو صنم اتنا تو کر
دل جو دکھتے تو نکل جائیں نہ آہیں کیونکر
تم ہی بتلاؤ کوئی دل کو سنبھالے کیونکر
ہوئی وصلت میں لڑائی کیونکر
آسمان چاہ جتائی کیونکر
غش آگیا ہے یار کی تنویر دیکھ کر
کریں بدنام کیوں ناحق ستم کا حال کہہ کہہ کر
دیتا ہے کوئی چاہنے والا بھی غم کو چھوڑ
کبھی انجم اسے ہشیار تو کر
غزل در صنعت ذو بحرین کہ ہر مصر عش دو وزن میدارد
ردیف راے ہندی
میں تو آتا نہیں خطا سے باز
پردہ دار دردے نورانی ہنوز
ردیف زاے معجمہ
ہو نہ میری چشم تر سے شرمسار ابکے برس
ردیف سین مہملہ
گر نہ ہوتا ہمیں وفا کا پاس
بن گئی ہے درد درماں کی ہوس
ردیف شین معجمہ
نہیں ہم کو انجم کسی کی تلاش
ہے دلمیں انکے وصل کی تکرارکی خلش
ردیف صاد مہملہ
پئے گناہ ہے تیری پناہ کی تخصیص
انگو بغل میں دیکھر جاتا نہ ہوتو جاے ہوش
یاں کفر سے غرض ہے نہ اسلام سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
بدلا نہ مجھ فقیر کی تقدیر کا خواص
کبھی لکھتا ہوں میں ان کو اگر خط
ردیف طاے مہملہ
چلے آؤ اگر دم بھر کو تم تو یہ جاتا رہے فی الفور مرض
نہیں ہم کو ساقی کسی کا لحاظ
ردیف ظاے معجمہ
ہم نے تو کی نہ تھی الم و غم سے احتیاط
کچھ ہمارا نہیں کرتے کبھی اغیار لحاظ
ایک دل ہی نہیں الفت کے اثر سے محفوظ
دم رخصت جو ان سے کہکے میں اٹھا خدا حافظ
ردیف عین مہملہ
گر جفا کی نہ وفا مانع
بیوفائی کے لیے گر نہیں پیماں مانع
کس کی بلا کو ہے غرض سیر چمن کو جائے باغ
زخم ہوتے جاتے ہیں چھل چھل کے داغ
ردیف غین معجمہ
لیچلی وحشت بیاباں کی طرف
ردیف فا
ترے ناز تو ہیں اٹھانے کے لایق
کیا ہم نے نہ اپنی جان کا خوف
نہ تھا دل ہمارا کبھی غم سے واقف
ردیف قاف
او دل آزار مرے دل کو دکھایا ناحق
نالۂ دل کو وہ سنکر نکل آیا ناحق
میری جانب ترا تیر نظر آیا ناحق
ردیف کاف
مری کیوں زباں کو کاتا کہ نکر سکون بیان تک
ترے وحشی کے دم تک تھی تری سرکار کی رونق
بیٹھا کریں گے مجھ سے ہٹ کے حضور کب تک
کل تلک جس ناتواں کا تھا گزر گلزار تک
نہ کیا تو نے کبھی وعدہ ملاقات کا ٹھیک
روز تو کرتا ہے ایجاد دنیا ایک سے ایک
مجھ سے رہیگا جدا یار مرا کب تلک
دیکھا کریں گے تم کو ہم گھو رگھور کب تک
ردیف کاف فارسی
میرے آنے سے تمہارے پاس گھبراتے ہیں لوگ
ردیف لام
مرغوب ہے جو صحبت اغیار آجکل
تری جدائی کی اے مسیحا نہیں ہے اب دل کو تاب بالکل
ہم تو ہیں اپنی خطا کے قائل
الٰہی کوئی ہوا کا جھونکا دکھاد ےچہرہ اڑا کے آنچل
ردیف میم
دیکھ کر اس یار کی تنویر ہم
دل تڑپ کر رہ گیا تجھ بن صنم
ردیف نون
جو صبح وصل وہ جانیکا نام لیتے ہیں
ہوش میں جب آسمان آتے ہیں ہم
یوں تو خدا کے فضل سے کہنے کو کیا نہیں
نہ پھندا ہے نہ کوئی پیچ گیسوے مسلسل میں
ادھر تو زندگی سے اپنی ہم اکتا ے جاتے ہیں
وہ چال اٹھکھیلیوں سے چل کر دل وجگر رونڈے ڈالتے ہیں
سیر کو اچھے گئے گلزار میں
دل ہمارا آنسوؤں کو جذب کر سکتا نہیں
پھول جتنے ہیں تمہارے ہارمیں
لگی ہے مسی پان کھائے ہوئے ہیں
خدا یا وہ حرارت دے ہماری آہ سوزاں میں
جوش پر اپنی مستیاں آئیں
کس نے دکھلا دیا خرام ہمیں
سوال کیا کروں تجھ سے گناہگارہوں میں
محو وہ رات کی تکرار ہوئی یا کہ نہیں
حال دل بھی اب تو کچھ اظہار کر سکتا نہیں
صاف ہم تم سے آج کہتے ہیں
نامہ برواقف نہیں دو تیسرا سے کیا کہیں
خدا خدا کرکے آے بھی وہ تو منہ لپٹے پڑے ہوے ہیں
جب سے پہلو میں وہ نگار نہیں
تم جو آتے سر مزا نہیں
بزم میں اول تو مرضی پاؤں دھرنے کی نہیں
آج مہندی لگائے بیٹھے ہیں
یہ نقشے اور یہ انداز دنیا سے نرالے ہیں
دم نہیں دم میں فغاں کیونکر کروں
منتیں تیری صبا کرتے ہیں
جیسے عاشق ترا ہوا ہوں میں
ضیق میں پڑ جائیگی دیکھا گلچین جان
تم سے بیکار دل لگائے کون
ہمیں جان کنی سے مفر ہو تو جانیں
نہ یہ شب ہونے دے برسوں نہ ہونے دے سحربرسوں
تمہارا نام کسے درد صبح وشام نہیں
الٰہی کھپ گئی کس گلبدن کی گات آنکھوں میں
دل سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
آپ کیوں مجھ سے لیتے ہیں قسمیں
ردیف واو
یہ غصہ اور یہ طیش وعتاب ہم سے کیوں
رسائی کا مرے نالوں کی مانع آسماں کیوں ہو
کب کہتا ہوں میں بوسہ تم دے کے چلے جاؤ
کس منہ سے بھلا کہدوں اے یار چلے جاؤ
غم و اندوہ کے مارے کو جلاتے جاؤ
دل خدا وند حسینوں پر کبھی مائل نہ ہو
کب میں کہتا ہوں دل مرا دے تو
قتل پر کیوں ابھی کستے ہو کمر دیکھ تو لو
کیا اظہار مدعا اب تو
لطف ہوگر تو ہو اور میخانہ ہو
آنکھیں اپنی ڈھونڈھتی ہیں یار کے دیدار کو
یہ نہین ممکن کہ تجھ سے ترکہ اپنا چال ہو
آنکھ ہم سے ذرا ملاؤ تو
کارگر کسکے ہوا تیر نظر دیکھیں تو
نہیں کہتا کہ تو آکر بچالے مرنے والوں کو
دل لے کے برائی کرتے ہیں لو اور سنو لو اور سنو
دل پہ وہ شوق سے ہنس ہنس کے گرائیں بجلی
یوں فغاں کر حال دل افشا نہ ہو
آپ نے ظلم ڈھاے کیا کیا کچھ
ردیف ہے
حاصل ہوا فراغ تری اک نظر کے ساتھ
قدر پہلے کچھ نہ جانی تو نے سمجھانیکی آہ
قصور مجھ سے ترا کوئی گر ہوا ہو تو کہہ
رہ جاے کیوں نہ آنسوؤں سے ڈبڈبا کےآنکھ
یوں تو ان آنکھوں سے ہم نے ادبت کہنے کو دنیا دیکھی
آنیکا آپ ہم سے وعدہ جو کر نہ جاتے
عرس وکرسی کی خبرلائے ہیں لانیوالے
جان دینے کا نہیں میرے سوا اور کوئی
انہیں ہو رہے ہیں گماں کیسے کیسے
ستم ایجاد وجفا پیشہ وبیداد گرے
نہ ہوئی صاف طبیعت ہی تو ہے
یہ عشق بتاں غضب نہ ڈھادے
یار بدظن کہیں نہ ہو جائے
خاک میں ہم کو ملا رکھا ہے
آنکھیں آمادہ جو ہیں دریا بہانے کے لیے
زلف بتاں کو کیوں چھیڑو کیا اس میں تمہارا رکھا ہے
چال کیوں چلتے ہو اٹھلائی ہوئی
دل لے کے ہمارا پھرتا ہے یہ کون وتیرہ تیراہے
خوبخود دل ہی بیٹھا جاتا ہے
نمک بیزگر گیری صورت نہ ہوتی
نہ ہوتا جنوں گر محبت نہ ہوتی
اک ذرا پردے سے باہر آیئے
نگہ کیا اور مژہ کیا اے صنم اسکو بھی اسکو بھی
کون سا طرز جفا ہے جو نہیں یاد تجھے
میر بجانب یہ گماں لو واہ وا اچھی کہی
توڑتا ہے دم ترا بیمار اٹھتے اٹھتے
تڑپا کیا دل بھی غم فرقت میں جگر بھی
جب سرشار ترے گیسوے پیچاں دیکھے
تم خفا ہو اے صنم کس واسطے
آنکھ آہوے صیدا فگن ہے
غم ہجر کے گئے دن گزر ہوا آخر اپنا وصال ہی
یاد کس کس کو کیاہے نہیں معلوم مجھے
وصل سے تو جدائی بہتر ہے
جب صفائی نہیں تو پھر کیا ہے
مری جان جدائی نہ ہوگی تو ہوگی
ذرا تو حال دل اے گریہ لب تک آنے دے
میری جانب بھی خدارا دیکھیے
آج کل ایسی ناتوانی ہے
کرے جو چھچھے بلبل ہزار بن تیرے
رہ نجاے کوئی دلمیں ترے ارمان باقی
نہ آج تک تو دلا زور بل قضا کے چلے
زبان کس طرح باز آئے فغاں سے
حیا و شرم کے صدقے ہنسی منہ پر نہیں آتی
کوچے میں گر جگہ نہ ملیگی مزار کی
امید مہر پر اک حسرت دل ہم بھی رکھتے تھے
عضو تقصیر جو ہوتی تو بڑی بات نہ تھی
نالوں کا اذن دے دل ناچار کے لیے
چشم کہتی ہے کہ شرمندہ ہے بارش مجھے
دیکھا نہیں جب سے تجھے اے ماہ لقا ہے
رقیبوں کا تری محفل میں کسدن تھا گزر پہلے
نہ کرنا ذبح اے ظالم مجھے شمشیر سے پہلے
تمہیں خیال ہمارا اگر نہیں نہ سہی
نہ تو گل کوئی نہ بوٹا نظرآتا ہے مجھے
ایک تیری نگاہ کیا بدلی
خدا نے وہ صورت بنائی تمہاری
نہ کرنا کوئی چارہ تو کہ یہ درد جگر جاے
صنم ہے یا خدا کیا جانے کیا ہے
درد دل بھی سنا نہیں سکتے
جو واقف ہو تم دل کے حالات سے
جنوں ابھی تو گر بیان میں تار باقی ہے
مری آہ بھی پراثر ہوگئی
بطرز دلبری بیداد کیجے
تم جو وعدہ نہ کر گئے ہوتے
اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
عبث وہ تند خو مجھ سے خفا ہے
ہمیں زاہد جو کافر جانتا ہے
ترے ہی سر کی مجھے قسم ہے بیان زیادہ نہ اسمیں کم ہے
چل بسے جو کہ تھے جانے والے
باعث ترک ملاقات بتاؤ تو سہی
آسماں باغ ہے یار گل اندام بھی ہے
خدا جانے وہ یار آئے نہ آئے
دل آفت رسیدہ پر مے بیداد کس نے کی
درد سے مملو ہے جو آواز ہے
باغ عالم کا یہی اسلوب ہے
پاؤں ہم ان کے ایک بار پڑے
غضب لائی ہماری ناتوانی
سرخرو ہوتے مری جان ہم تمہارے سامنے
بیاں جو ان سے کبھی دل کا مدعا کرتے
یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجم جیتا ہے یا مرتا ہے
یہ خون جگر رایگاں ہورہا ہے
اثر آہ کا اب عیاں ہورہا ہے
اگر دم بھی نکل جاے نہ حسرت دل سے نکلے گی
جس پر اپنی جان جاتی ہے وہ دلبر اور ہے
کسی کا نام بڑا ہو کسی کی ذات بڑی
تیری الفت بلا کی ہے
جس ادا کا زمانہ شاکی ہے
دیکھ لو صاحب ادھر نازو ادا سے
بات تھی وہ کون سی جو بہر موسیٰ رہ گئی
شاید ازلطف کند یار نگاہے گاہے
دلم بردی نگار من چہ کردی
لی خبر تو نے نہ قاتل میری
مانا تو کیا کر ستم ایجاد کسی کی
مجھی پر کچھ نہیں موقوف کوچے سے ترے قاتل
دم بھر مری تسکین وہ کر جاتے ہیں کیسے
کہہ تو انجم تجھے ہوا کیا ہے
دل دینے میں اس کو ہمیں کچھ ڈر تونہیں ہے
تم آے تو کچھ درد سے مہلت تو نہیں ہے
درد ہو تو دوا کرے کوئی
داور حشر کے انصاف سے ڈرنے والے
دکھاتا ہے مرا دل یے الف رے
بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے
شال چرخ رہا آسماں تو سر گرداں
کس طرح دیکھیں گے انکو بے حجاب آتے ہوے
اڑیں گے ہوش ساقی کے شراب نابکی صورت
سحر ہے دور مرا رنگ فق ابھی سے ہے
ہمارےخواب میں آیا نہ کیجے
اسی امید پہ دیدوں کی فرش راہ کیا
اس سفلہ روزگار میں آنکھیں کھلی ہوئی
جو بیدرد ہے اسپہ شیدا ہوا ہے
ہم نے مانا کہ ہزاروں ہیں تمہارے شیدا
نکہت صبا تمہاری کبھی لائی بھی نہ تھی
خود بخود عشاق بے مارے ترے مر جاتے ہیں
جان عاشق ہجر میں گھبرا گئی
دوش انجم زپیر فرزانہ
تقریظ از نتائج افکار جناب سید یوسف علی صاحب کاہش لکھنوی۔۔۔
کسی سینے میں درد او رسوزش
ہوے محو نظارہ اہل نظر
قطعۂ دیوان حسرت از جناب شنکر دیال
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔