سرورق
بھر دے انکھیانمیں مرے تو گرد تجھ نعلین کا
اول ہے فرض حمد و ثنا رب کریم کا
دید ہے گا جس کو حق کی ذات کا
کرتا نہیں عبث کیوں نظارہ ماہ رو کا
اندھاری رات میں ڈرموذیوں کا ہے کبل ایسا
تجھے دہشت نہیں حق کے امر کا
واصل کو جزوکل منے لذت وصال کا
جس نے دیکھا ہے جھلک دیدار کا
اگر چہ سو برس کی عمر جیا جہاں میں کوئی رہیگا
آتا ہے کہاں دیکھنے میں راہ نہاں کا
کر عشق کا نین میں تیرے آب ہوئیگا
وعدے پہ اپنے قرب کے جس وقت آؤں گا
رخ تیرا نور نظر تھا مجھے معلوم نہ تھا
عجب دیکھا ہے رتبہ عشق والا
عجب چنچل ملا ہے یار ہمنا
عشق کے بستان منے جسوقت محمد گل ہوا
دل پیو کے دیکھنے کو درخشاں ہوا ہوا
لطف سون جب جان مجھ پر نظر کرتا چلا
مشتاق ہو کے دیکھیں آیا بہار تیرا
الٰہی بلبل گلزار معنی کر لسان میرا
ہمیشہ دل کی مسجد میں ہمیں کرتے نماز اپنا
جسے نہیں دید باطن کا اسے سب جان وتن ستا
گر عشق ہے تو دیکھنے پیو کو شتاب آ
نکو نصیحت کرو عزیزاں لگا ہے ہمنا مہن سون یتا
ہوا جو ذات کا عاشق اسے ننگ و نام کیا کرنا
لیتا کہیں پکار اے غافل بیابیا
ہو اجلوہ گر خانۂ دل نہایت ملا جب سون دلبر پیارا ہمارا
تیزی تیرے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا
یار کے درسن کے خاطر جان اور تن بھول جا
آیا ہے مگر عشق میں دلدار ہمارا
عقل کو چھوڑ عشق میں آجا
عشق تیرا دل کو میرے جال کر پانی کیا
نکتہ الف احد ہو مخفی سون بہار آیا
دل کے نینوں میں مہن کو تاڑنا
مدن کی مے سون اے سالکان ہو اگر رتی ایک چھکا دین تمنا
خدا کا یاد کرلے تو کہ آخر تجھ خدا ہو گا
جب شاہ عشق گنج خفی سون جدا ہوا
عبث کیوں عمر سونے میں گنوایا
زخم دل کا جب صنم مرہم ہوا
در پردۂ کن گنج عیاں تھا سو نبی تھا
سمجھ کے دیکھو اے عارفان تم کیا ہے حق نے یہ بھید کیسا
ردیف بے
بندے کو بخش اتنا اپنا خیال یارب
حسن تیرا اے شہ عالی جناب
چھوڑ دے دنیائے فانی کی طلب
جب ہوا معشوق عاشق کا حبیب
رب کو حاضر بوجھکر کہتا ہے غائب کیا سبب
غفلت میں سویا اب تلک پھر ہوویگا ہشیار کب
سب پیر اور فقیر سون ہوں کمترین تراب
اپنے سے بے سمجھ کو حق کی کہانی پچھانت
ردیف تے
بزرگان جملہ باوصف کمالات
عمر جاتی ہے بیخبر ہیہات
غفلت کا کرشتابی معالج علاج آج
ردیف جیم
حق کے بدلے ہشیار ہو اے یاردروقت صبح
مرغ زیرک عقل کا ہے عشق کا صیاد شوخ
ردیف خا
ردیف حا
ردیف دال
مان کہتے کو مرے عاقل وجود
تو عبث غفلت میں پڑ کر حق سون ہوتا ہے بعید
احدیت اور واحدیت ایک عدد
وجوان سگل جگ ہیں موجود واحد
دیا ساقی لبالب مجھ کو ساغر
حسن کا دیکھ ہر طرف گلزار
ردیف را
ہے محمد جسم و جان پروردگار
دونوں جہاں میں دیکھ ہے ایک نور کا ظہور
تو ہے کس منزل میں تیرا بول کہاں ہے دلکا ٹھار
یک ادا سون دو جہاں تسخیر کر
ردیف زا
دل لیا نہیں دلبر جانی ہنوز
نفس میرا بدخیال ہنوز
سور جیون ذرے کو کرتا سرفراز
عشق کا ہونے لگا جب تیغ تیز
نہیں فرصت امر سون رب کے دم کو ایک پل ہر گز
ردیف سین
آس رکھ حق کی جگت سون ہو نراس
جب کہ لاگا باجنے دل کا جرس
چھوڑ دے اے نفس اب فکر معاش
ردیف صاد
ردیف شین
بحر عرفاں میں جو ہوا غواص
دیگ سون دل کے کیا جب عشق جوش
ردیف ضاد
حکمت میں عاشقاں کے پچھانت ہے دل کا نبض
ردیف طا
ردیف ظا
عاقلان خانۂ بر آب غلط
کیا کھلاڑی ذات کا کھیلا ہے بازی الحفیظ
عشق جب حسن سون ہواے طلوع
ردیف غین
جب حسن کا صنم کے ہوا نو بہار باغ
ردیف عین
ردیف گاف
یار کے دیدار کا رکھ اشتیاق
ردیف فا
عشق ہے دریائے وحدت کا نہنگ
ذکر کے مصقلی سون کر دل صاف
ردیف قاف
پیتم کے دیکھنے کے تماشا کو جائیں چل
ردیف لام
بول اے درویش کامل مجھ قلندر کا سوال
ہے عبادت سون برس شتر بہتر ایک دم
من عرف جب تلک نہیں معلوم
ردیف میم
جا خودی سون گزر خدا کی قسم
ردیف نون
عشق آہم سون کیا جب رام رام
اول کر مصقلہ دل کا جو ہووے صاف جو درپن
دلبر کو دلبری سون منا یار کر رکھون
چاہوں کہ سیر عالم بالا اگر کروں
دیدار کو صنم کے درشن نہ کہیں تو کیا کہیں
جو مکھ موہن کو چندر جانتے ہیں
ملک میں تن کے اپس خوش عشق کا سلطان ہوں
ردیف واؤ
کرتا ہے زاہد زاہد عالم کے دکھانے کو
لگا کر عشق کا کجرا نین کو
راہ میں حق کے عزیزان آپکو قربان کرو
تم اگر چاہو مکان لامکاں میں گھر کرو
سنو عزیزان سخن ہمارا اجل کو ہر گز تکو تپاؤ
بیخودی جا خمار سوں بولو
سب پیر اور مشایخ میرا سوال بولو
یار جب نینوں میں آیا ہو بہو
ردیف ہا
مجھکو دستا ہے زمانیکا عجب احوال کچھ
اب تلک حق نہیں پچھانے واہ واہ
جمع فقرا میں سدا دھوم دھام عشق اللہ
سدا رکھ دل کے چشمے کو تو مالامال یا اللہ
رقیب نفس کا مکھ موڑتا رہ
نور حق بے حجاب عشق اللہ
جب عشق کے انجمن کا تمن ہت ہنر آوے
لامکاں لگ لگ عاشقاں کے عشق کا پرداز ہے
دھر جب ناز سوں پیتم قدم آہستہ آہستہ
بیتاب دل کو جسکی تجلی سوں تاب ہے
گرد سوں غیرت کے سب کا دامن دل پاک ہے
محی الدین ہادی و رہبر ہے تو کیا ڈر ہے
عجب دیکھا پیا الفت تمہاری
عاشقاں کی راہ میں کب آؤ گے
عجب کچھ عشق کی خوشتر ہے وادی
پیا کے مکھ چندراو پر چکورے
اناالمعبود کہتا ہے کہو پھر اور ک یا کہئے
جب پیارا گلا سناتا ہے
بحری پچھانے نہیں اسے گل کے سو وہ دمساز تھے
پیا کے رخ کی جھلک کا پر تو کیا ہے جھلکار آفتابی
ہیں حکیم وقت لیکن نبض دل نہیں جانتے
مہرباں رب کریم میرا ہے
کھول انکھیاں دیکھ لے ہر شیٔ میں حق کی ذات ہے
خیالات رنگین نہیں بولتے اسکو جیون باس پھولوں گے رنگوں میں رہئے
دسا مجھ کو خوش چہرۂ لامثال
تجلی سون دل جس کا پرنور ہے
ترکیب بند
مخمس
نیر برج کرامت مطلع ماہ منیر
خدا رحمت کرے نازل بنی صاحب کی مجلس میں
اللہ کے حبیب کی جلوہ گری ہوئی
نقطۂ اول کا یوں جس دم ارادہ ہو گیا
شکر لازم ہر زبان کو کیوں نہ ہو اللہ کا
غزلیات مسکین شاہ
گنج مخفی سے دو عالم جو نمودار ہوا
دیکھے گا نہ جواد سکو وہ حیران رہیگا
گھر کو خدا کے جس نے دیکھا خدا کو پایا
دل عشق میں اک طائر مستانہ ہے اسکا
ہمکو عدم میں شوق نے عاشق بنا دیا
روح قالب سے نہ ہو جب تلک اے یار جدا
شاہ تھا یا تو گدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
اس مہ نو کا جس نے دید کیا
فرہاد کوہ غم کو نہ سرسے ٹلا سکا
زلف و کاکل کو جس نے پیار کیا
ماہر ویان ہزار کو دیکھا
ویرانہ رہے گا نہ دل آباد رہے گا
سنتے ہی دل ہو گیا اس یار کا اسرار مست
کل ہم سے ملاقات میں وہ یار جو کی بحث
آکے پروانہ کسی شعلے پہ جل جاتا ہے جب
کونسی ہے ناصحا اس دلکو سمجھانیکی طرح
جس کبھی آیا نظر ہم کو ترا اے یار رخ
شمع روشن جسم فانوس خیالی میں ہے آج
اتنی ہم پر کرو نہ تم بیداد
رہ گیا دل پہ جو اس مہ کا خیال آخر کار
حال دل لکھنے کو گردے کوئی لاکر کاغذ
جو کچھ کیا سب ہو گئی تدبیر ہوا پر
میرا شاہد وہ ہمیں عیار آتا ہے نظر
منصور میں نہیں جو کروں دار کی ہوس
نہیں ہے قابل تحریر سوز حال شمع
تسبیح سے غرض ہے نہ زنار سے غرض
وحشی نہ منہ کرے کبھی آباد کی طرف
سنتے ہی مست ہوا دل مرا افسانہ عشق
ہم سے تم منہ چھپاؤ گے کب تک
جان دینا ہے سہل یار کا پانا مشکل
کسی کا ایک ہے دشمن تو دوستدار ہے ایک
تیوری چڑھائے پھرتا ہے وہ یار آجکل
چھوڑ کر ہستی کو اب ملک عدم جاتے ہیں ہم
نہیں ہے مجھ کو اے چمشید تیرے جام سے کام
میں تو ہوں ظاہر پہ میرا کچھ نشان ملتا نہیں
کیسے کیسے اہل صنعت کو ملایا خاک میں
بھری ہے تشنہ دیداری مرے یوں دیدۂ تر میں
مردوں میں مرد ہوں دل مردانہ دیکھ دیکھ
اسے تم جہاں میں کدھر دھونڈھتے ہو
کہاں خواب عدم سے عالم بیدار میں آئے
ثبوت بقا میں نہ میں ہوں نہ تو ہے
اس یار کی خواہش کو کس طرح کوئی پاوے
غم سے ہم تیرے صنم کس طرح جی بہلائیں گے
ساتھ میرے جو وہ ٹہلتا ہے
چھٹ گیا عشق میں سب دین اور ایمان ہم سے
کعبے کو ڈھائیے بت کفار توڑیئے
دو شب سرائے میں نہ کوئی کارواں رہے
آگے ہستی میں جو ہم اپنا وطن بھول گئے
کون ہے عابد یہاں اور کون وہ معبود ہے
موئے عشق میں عاشقاں کیسے کیسے
دارفانی میں بھلا مسکیں تو کیا بیہوش ہے
لے گیا گلشن ہستی سے جوداماں خالی
خاتمۃ الطبع
سرورق
بھر دے انکھیانمیں مرے تو گرد تجھ نعلین کا
اول ہے فرض حمد و ثنا رب کریم کا
دید ہے گا جس کو حق کی ذات کا
کرتا نہیں عبث کیوں نظارہ ماہ رو کا
اندھاری رات میں ڈرموذیوں کا ہے کبل ایسا
تجھے دہشت نہیں حق کے امر کا
واصل کو جزوکل منے لذت وصال کا
جس نے دیکھا ہے جھلک دیدار کا
اگر چہ سو برس کی عمر جیا جہاں میں کوئی رہیگا
آتا ہے کہاں دیکھنے میں راہ نہاں کا
کر عشق کا نین میں تیرے آب ہوئیگا
وعدے پہ اپنے قرب کے جس وقت آؤں گا
رخ تیرا نور نظر تھا مجھے معلوم نہ تھا
عجب دیکھا ہے رتبہ عشق والا
عجب چنچل ملا ہے یار ہمنا
عشق کے بستان منے جسوقت محمد گل ہوا
دل پیو کے دیکھنے کو درخشاں ہوا ہوا
لطف سون جب جان مجھ پر نظر کرتا چلا
مشتاق ہو کے دیکھیں آیا بہار تیرا
الٰہی بلبل گلزار معنی کر لسان میرا
ہمیشہ دل کی مسجد میں ہمیں کرتے نماز اپنا
جسے نہیں دید باطن کا اسے سب جان وتن ستا
گر عشق ہے تو دیکھنے پیو کو شتاب آ
نکو نصیحت کرو عزیزاں لگا ہے ہمنا مہن سون یتا
ہوا جو ذات کا عاشق اسے ننگ و نام کیا کرنا
لیتا کہیں پکار اے غافل بیابیا
ہو اجلوہ گر خانۂ دل نہایت ملا جب سون دلبر پیارا ہمارا
تیزی تیرے مژگاں کی یہ نشتر سے کہوں گا
یار کے درسن کے خاطر جان اور تن بھول جا
آیا ہے مگر عشق میں دلدار ہمارا
عقل کو چھوڑ عشق میں آجا
عشق تیرا دل کو میرے جال کر پانی کیا
نکتہ الف احد ہو مخفی سون بہار آیا
دل کے نینوں میں مہن کو تاڑنا
مدن کی مے سون اے سالکان ہو اگر رتی ایک چھکا دین تمنا
خدا کا یاد کرلے تو کہ آخر تجھ خدا ہو گا
جب شاہ عشق گنج خفی سون جدا ہوا
عبث کیوں عمر سونے میں گنوایا
زخم دل کا جب صنم مرہم ہوا
در پردۂ کن گنج عیاں تھا سو نبی تھا
سمجھ کے دیکھو اے عارفان تم کیا ہے حق نے یہ بھید کیسا
ردیف بے
بندے کو بخش اتنا اپنا خیال یارب
حسن تیرا اے شہ عالی جناب
چھوڑ دے دنیائے فانی کی طلب
جب ہوا معشوق عاشق کا حبیب
رب کو حاضر بوجھکر کہتا ہے غائب کیا سبب
غفلت میں سویا اب تلک پھر ہوویگا ہشیار کب
سب پیر اور فقیر سون ہوں کمترین تراب
اپنے سے بے سمجھ کو حق کی کہانی پچھانت
ردیف تے
بزرگان جملہ باوصف کمالات
عمر جاتی ہے بیخبر ہیہات
غفلت کا کرشتابی معالج علاج آج
ردیف جیم
حق کے بدلے ہشیار ہو اے یاردروقت صبح
مرغ زیرک عقل کا ہے عشق کا صیاد شوخ
ردیف خا
ردیف حا
ردیف دال
مان کہتے کو مرے عاقل وجود
تو عبث غفلت میں پڑ کر حق سون ہوتا ہے بعید
احدیت اور واحدیت ایک عدد
وجوان سگل جگ ہیں موجود واحد
دیا ساقی لبالب مجھ کو ساغر
حسن کا دیکھ ہر طرف گلزار
ردیف را
ہے محمد جسم و جان پروردگار
دونوں جہاں میں دیکھ ہے ایک نور کا ظہور
تو ہے کس منزل میں تیرا بول کہاں ہے دلکا ٹھار
یک ادا سون دو جہاں تسخیر کر
ردیف زا
دل لیا نہیں دلبر جانی ہنوز
نفس میرا بدخیال ہنوز
سور جیون ذرے کو کرتا سرفراز
عشق کا ہونے لگا جب تیغ تیز
نہیں فرصت امر سون رب کے دم کو ایک پل ہر گز
ردیف سین
آس رکھ حق کی جگت سون ہو نراس
جب کہ لاگا باجنے دل کا جرس
چھوڑ دے اے نفس اب فکر معاش
ردیف صاد
ردیف شین
بحر عرفاں میں جو ہوا غواص
دیگ سون دل کے کیا جب عشق جوش
ردیف ضاد
حکمت میں عاشقاں کے پچھانت ہے دل کا نبض
ردیف طا
ردیف ظا
عاقلان خانۂ بر آب غلط
کیا کھلاڑی ذات کا کھیلا ہے بازی الحفیظ
عشق جب حسن سون ہواے طلوع
ردیف غین
جب حسن کا صنم کے ہوا نو بہار باغ
ردیف عین
ردیف گاف
یار کے دیدار کا رکھ اشتیاق
ردیف فا
عشق ہے دریائے وحدت کا نہنگ
ذکر کے مصقلی سون کر دل صاف
ردیف قاف
پیتم کے دیکھنے کے تماشا کو جائیں چل
ردیف لام
بول اے درویش کامل مجھ قلندر کا سوال
ہے عبادت سون برس شتر بہتر ایک دم
من عرف جب تلک نہیں معلوم
ردیف میم
جا خودی سون گزر خدا کی قسم
ردیف نون
عشق آہم سون کیا جب رام رام
اول کر مصقلہ دل کا جو ہووے صاف جو درپن
دلبر کو دلبری سون منا یار کر رکھون
چاہوں کہ سیر عالم بالا اگر کروں
دیدار کو صنم کے درشن نہ کہیں تو کیا کہیں
جو مکھ موہن کو چندر جانتے ہیں
ملک میں تن کے اپس خوش عشق کا سلطان ہوں
ردیف واؤ
کرتا ہے زاہد زاہد عالم کے دکھانے کو
لگا کر عشق کا کجرا نین کو
راہ میں حق کے عزیزان آپکو قربان کرو
تم اگر چاہو مکان لامکاں میں گھر کرو
سنو عزیزان سخن ہمارا اجل کو ہر گز تکو تپاؤ
بیخودی جا خمار سوں بولو
سب پیر اور مشایخ میرا سوال بولو
یار جب نینوں میں آیا ہو بہو
ردیف ہا
مجھکو دستا ہے زمانیکا عجب احوال کچھ
اب تلک حق نہیں پچھانے واہ واہ
جمع فقرا میں سدا دھوم دھام عشق اللہ
سدا رکھ دل کے چشمے کو تو مالامال یا اللہ
رقیب نفس کا مکھ موڑتا رہ
نور حق بے حجاب عشق اللہ
جب عشق کے انجمن کا تمن ہت ہنر آوے
لامکاں لگ لگ عاشقاں کے عشق کا پرداز ہے
دھر جب ناز سوں پیتم قدم آہستہ آہستہ
بیتاب دل کو جسکی تجلی سوں تاب ہے
گرد سوں غیرت کے سب کا دامن دل پاک ہے
محی الدین ہادی و رہبر ہے تو کیا ڈر ہے
عجب دیکھا پیا الفت تمہاری
عاشقاں کی راہ میں کب آؤ گے
عجب کچھ عشق کی خوشتر ہے وادی
پیا کے مکھ چندراو پر چکورے
اناالمعبود کہتا ہے کہو پھر اور ک یا کہئے
جب پیارا گلا سناتا ہے
بحری پچھانے نہیں اسے گل کے سو وہ دمساز تھے
پیا کے رخ کی جھلک کا پر تو کیا ہے جھلکار آفتابی
ہیں حکیم وقت لیکن نبض دل نہیں جانتے
مہرباں رب کریم میرا ہے
کھول انکھیاں دیکھ لے ہر شیٔ میں حق کی ذات ہے
خیالات رنگین نہیں بولتے اسکو جیون باس پھولوں گے رنگوں میں رہئے
دسا مجھ کو خوش چہرۂ لامثال
تجلی سون دل جس کا پرنور ہے
ترکیب بند
مخمس
نیر برج کرامت مطلع ماہ منیر
خدا رحمت کرے نازل بنی صاحب کی مجلس میں
اللہ کے حبیب کی جلوہ گری ہوئی
نقطۂ اول کا یوں جس دم ارادہ ہو گیا
شکر لازم ہر زبان کو کیوں نہ ہو اللہ کا
غزلیات مسکین شاہ
گنج مخفی سے دو عالم جو نمودار ہوا
دیکھے گا نہ جواد سکو وہ حیران رہیگا
گھر کو خدا کے جس نے دیکھا خدا کو پایا
دل عشق میں اک طائر مستانہ ہے اسکا
ہمکو عدم میں شوق نے عاشق بنا دیا
روح قالب سے نہ ہو جب تلک اے یار جدا
شاہ تھا یا تو گدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
اس مہ نو کا جس نے دید کیا
فرہاد کوہ غم کو نہ سرسے ٹلا سکا
زلف و کاکل کو جس نے پیار کیا
ماہر ویان ہزار کو دیکھا
ویرانہ رہے گا نہ دل آباد رہے گا
سنتے ہی دل ہو گیا اس یار کا اسرار مست
کل ہم سے ملاقات میں وہ یار جو کی بحث
آکے پروانہ کسی شعلے پہ جل جاتا ہے جب
کونسی ہے ناصحا اس دلکو سمجھانیکی طرح
جس کبھی آیا نظر ہم کو ترا اے یار رخ
شمع روشن جسم فانوس خیالی میں ہے آج
اتنی ہم پر کرو نہ تم بیداد
رہ گیا دل پہ جو اس مہ کا خیال آخر کار
حال دل لکھنے کو گردے کوئی لاکر کاغذ
جو کچھ کیا سب ہو گئی تدبیر ہوا پر
میرا شاہد وہ ہمیں عیار آتا ہے نظر
منصور میں نہیں جو کروں دار کی ہوس
نہیں ہے قابل تحریر سوز حال شمع
تسبیح سے غرض ہے نہ زنار سے غرض
وحشی نہ منہ کرے کبھی آباد کی طرف
سنتے ہی مست ہوا دل مرا افسانہ عشق
ہم سے تم منہ چھپاؤ گے کب تک
جان دینا ہے سہل یار کا پانا مشکل
کسی کا ایک ہے دشمن تو دوستدار ہے ایک
تیوری چڑھائے پھرتا ہے وہ یار آجکل
چھوڑ کر ہستی کو اب ملک عدم جاتے ہیں ہم
نہیں ہے مجھ کو اے چمشید تیرے جام سے کام
میں تو ہوں ظاہر پہ میرا کچھ نشان ملتا نہیں
کیسے کیسے اہل صنعت کو ملایا خاک میں
بھری ہے تشنہ دیداری مرے یوں دیدۂ تر میں
مردوں میں مرد ہوں دل مردانہ دیکھ دیکھ
اسے تم جہاں میں کدھر دھونڈھتے ہو
کہاں خواب عدم سے عالم بیدار میں آئے
ثبوت بقا میں نہ میں ہوں نہ تو ہے
اس یار کی خواہش کو کس طرح کوئی پاوے
غم سے ہم تیرے صنم کس طرح جی بہلائیں گے
ساتھ میرے جو وہ ٹہلتا ہے
چھٹ گیا عشق میں سب دین اور ایمان ہم سے
کعبے کو ڈھائیے بت کفار توڑیئے
دو شب سرائے میں نہ کوئی کارواں رہے
آگے ہستی میں جو ہم اپنا وطن بھول گئے
کون ہے عابد یہاں اور کون وہ معبود ہے
موئے عشق میں عاشقاں کیسے کیسے
دارفانی میں بھلا مسکیں تو کیا بیہوش ہے
لے گیا گلشن ہستی سے جوداماں خالی
خاتمۃ الطبع
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.