سرورق
اوٹہجاوی اوسکی رخ سے جو پردہ حجاب کا
نیرنگ میں گر جلوۂ بیرنگ ہوتا
بیخودی میں عجب مزا دیکھا
اس دل میں اگر جلوۂ دلدار نہوتا
اے دل نہ بہولیو کبھی ہشیار دیکھنا
ہے دل وہاں پہ فضل خدا سے بسا ہوا
مجھے ساقی چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا
تمہاری مستوں میں ہم نے ساقی عجب طرح کا حساب دیکھا
اوسکے چہرہ سے جو اوٹھ جاوے نقاب
لشکر عشق آپڑا ہے ملک دلپر ٹوٹ ٹوٹ
حسن کمال کو نہیں زیور کی احتیاج
مشکل بہت ہیں میرے عنانگیر الغیاث
قتل کے میرے نکر تو کچھ صلاح
بادہ ہی بی ساقی گلفام تلخ
ہے کیا ہے بوسہ رخ جان جہان لذیذ
طوبای کرم ہی قددلجوی محمدؐ
سن لیوی اگر تو مری دلدار کی آواز
گر اس جہاں میں تو چاہے ہے اب خد اسے جوڑ
غیر حق کو بہول کرایدل تو بس
ہو سکتا نییں دل سے ہی دلداز فراموش
سبحہ سے ہی نہ کام نہ زنا رسی غرض
غم سی تیری نہیں ہونے کا دل زار خلاص
دل کو کب ہوتا ہے بی دلدار حظ
ہے دل کو میری عارض جاناں سے احتیاط
اوسکی عارض پر ہی شیدا صورت پروانہ شمع
جب سے ہے آنکہ مری کاکل جانانکی طرف
دستیاب اوسکو ہوا جب سے ہی گلدستہ داغ
کوئی دم تھمتا نہیں باران اشک
ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق
اوٹہی ہے جب سے دلمین مرے عشق کے ترنگ
ہے تجلی گاہ جانان صفۂ ایوان دل
شکل جانا نہ جابجا ہیں ہم
ہے عیان روی یار آنکھوں میں
زلفیں یہ تیری پیاری ہر دل کو بہار ہی ہیں
قید دل سے ہے مری کاکل پیچان نازان
کون و مکاں میں یارو آباد ہیں تو ہم ہیں
عاشق زار ہوں جز عشق مجھی کام نہیں
حال اپنا دوستو میں کیا کہوں
کیا کہوں تم سے میں یارو کون ہوں
کیا کہیں ہم تمہیں کیا جانتی ہیں
بچشم حقیقت جہاں دیکھتا ہوں
زلف میں اوسکی اب تو دل جا کی پہنسا جو ہو سو ہو
بندۂ عشق ہوں جز یار مجھی کام نہیں
افسانہ مری دل کا آزار سی کہدو
شوق میں کس کی طپاں ہے دل نالاں تو
قد ہی یا سرو باستان ہی یہ
کافر ہیں نہ ہم اور نہ دیندار ہیں یارو
پینے دو مجہی خوں دل آرام یہی ہے
ہماری دل کی مصیبت بھلا تو کیا جانے
عجب تو نے جلوہ دکھایا مجھے
تری عشق نے ہے کی اب مرے دل میں کیا سمائی
عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہی
یہ حلقے جو ہیں زلف میں یار کے
خیال غیر حق میں عمر کو برباد کیوں کیجے
الہی حاجت مارا رواکن
چون نگار ستان بنقش انطباع
شاہ آثم مطیع شرع نبی
AUTHORشاہ آثم
YEAR1866
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع دریائے لطافت، کانپور
AUTHORشاہ آثم
YEAR1866
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع دریائے لطافت، کانپور
سرورق
اوٹہجاوی اوسکی رخ سے جو پردہ حجاب کا
نیرنگ میں گر جلوۂ بیرنگ ہوتا
بیخودی میں عجب مزا دیکھا
اس دل میں اگر جلوۂ دلدار نہوتا
اے دل نہ بہولیو کبھی ہشیار دیکھنا
ہے دل وہاں پہ فضل خدا سے بسا ہوا
مجھے ساقی چشم یار نے عجب ایک جام پلا دیا
تمہاری مستوں میں ہم نے ساقی عجب طرح کا حساب دیکھا
اوسکے چہرہ سے جو اوٹھ جاوے نقاب
لشکر عشق آپڑا ہے ملک دلپر ٹوٹ ٹوٹ
حسن کمال کو نہیں زیور کی احتیاج
مشکل بہت ہیں میرے عنانگیر الغیاث
قتل کے میرے نکر تو کچھ صلاح
بادہ ہی بی ساقی گلفام تلخ
ہے کیا ہے بوسہ رخ جان جہان لذیذ
طوبای کرم ہی قددلجوی محمدؐ
سن لیوی اگر تو مری دلدار کی آواز
گر اس جہاں میں تو چاہے ہے اب خد اسے جوڑ
غیر حق کو بہول کرایدل تو بس
ہو سکتا نییں دل سے ہی دلداز فراموش
سبحہ سے ہی نہ کام نہ زنا رسی غرض
غم سی تیری نہیں ہونے کا دل زار خلاص
دل کو کب ہوتا ہے بی دلدار حظ
ہے دل کو میری عارض جاناں سے احتیاط
اوسکی عارض پر ہی شیدا صورت پروانہ شمع
جب سے ہے آنکہ مری کاکل جانانکی طرف
دستیاب اوسکو ہوا جب سے ہی گلدستہ داغ
کوئی دم تھمتا نہیں باران اشک
ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق
اوٹہی ہے جب سے دلمین مرے عشق کے ترنگ
ہے تجلی گاہ جانان صفۂ ایوان دل
شکل جانا نہ جابجا ہیں ہم
ہے عیان روی یار آنکھوں میں
زلفیں یہ تیری پیاری ہر دل کو بہار ہی ہیں
قید دل سے ہے مری کاکل پیچان نازان
کون و مکاں میں یارو آباد ہیں تو ہم ہیں
عاشق زار ہوں جز عشق مجھی کام نہیں
حال اپنا دوستو میں کیا کہوں
کیا کہوں تم سے میں یارو کون ہوں
کیا کہیں ہم تمہیں کیا جانتی ہیں
بچشم حقیقت جہاں دیکھتا ہوں
زلف میں اوسکی اب تو دل جا کی پہنسا جو ہو سو ہو
بندۂ عشق ہوں جز یار مجھی کام نہیں
افسانہ مری دل کا آزار سی کہدو
شوق میں کس کی طپاں ہے دل نالاں تو
قد ہی یا سرو باستان ہی یہ
کافر ہیں نہ ہم اور نہ دیندار ہیں یارو
پینے دو مجہی خوں دل آرام یہی ہے
ہماری دل کی مصیبت بھلا تو کیا جانے
عجب تو نے جلوہ دکھایا مجھے
تری عشق نے ہے کی اب مرے دل میں کیا سمائی
عشق کے اقلیم میں چال و چلن کچھ اور ہی
یہ حلقے جو ہیں زلف میں یار کے
خیال غیر حق میں عمر کو برباد کیوں کیجے
الہی حاجت مارا رواکن
چون نگار ستان بنقش انطباع
شاہ آثم مطیع شرع نبی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔