حیف صد حیف ہوی تارک دنیای دنی
دیوان جناب شاہ اقلیم سخن
صد شکر مجتمع ہوی نظم وزیر آج
بنے گا بلبل اب ہر اک سخندان
زمین شعروسخن راگذاشت خواجہ وزیر
چون زدنیا گذشت گردیدہ
در غمش جملہ قدردان کلام
وزیر داشت تخلص جناب خواجہ وزیر
خواجہ وزیر شاعر خوش فکر وخوش بیان
از جناب مولوی محمد بخش صاحب شہید تخلص شاکر دشیخ صاحب مرحوم
ازمرزا حاتم علی بیگ صاحب مہر تخلص شاکرد شیخ صاحب مرحوم
ازلالہ رام سہای صاحب رونق تخلص شاگرد شیخصاحب مرحوم
شدزبیت فنا بملک بقا
افصح شاعران ہند کہ بود
جنت کو ہوی راہی دنیا سے وزیر افسوس
شاعربی نظیر خواجہ وزیر
بھادر جنگ اسیر تخلص شاگرد غلام ہمدانی مصحفی
ازعبد اللہ خان صاحب مہر تخلص شاگرد نسیم دہلوی
دوش بودم بفکر خود غمگین
کرداز دنیا سفر خواجہ وزیر
حکیم آہ جسوقت خواجہ وزیر
ازحکیم محمد ابراھیم صاحب حکیم تخلص شاگرد نسیم دہلوی
از شیخ اشرف علی صاحب خوشنویس اشرف تخلص شاگرد نسیم دہلوی
ہیہات دنیا سے اٹھے والد مرے خواجہ وزیر
از جناب خواجہ بادشاہ صاحب سفیر تخلص خلف اکبر خواجہ صاحب مرحوم
وزیر آج ملک عدم کو گئے
ازکبیر الدین صاحب نشاط تخلص شاگرد عبد اللہ خاں مہر
قبلہ و کعبہ جناب والدواستاد ہای
گئی جو ملک عدم کو وزیر شاہ سخن
ازجناب میر محسن علی صاحب محسن تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازحکیم میرا انعام حسین صاحب مجنون تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
دنیا سے اے سپہر اوٹھے خواجۂ وزیر
از میر محمد صاحب عرف میر محمدی سپہر تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازشیخ قادر علی صاحب موجد تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
از مرزا نظر علی بیگ صاحب تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
بادشاہ شاعران خواجہ وزیر
ازمولوی جلال الدین صاحب جلال تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازلالہ دہنپت رای صاحب زار تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازمرزا اصغر علی بیگ صاحب فقیر تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازعبدالصمد صاحب حزین تخلص شاگرد مولوی محمد حسن صاحب حسن
ازمولوی میر محمد حسن صاحب حسن تخلص شاگرد وخواجہ صاحب مرحوم
بادشاہ شاعران خواجہ وزیر
ازمنشی مرزا محمد رضا صاحب معجز تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازعبدالرحیم خان صاحب رسالہ دار رحیم تخلص شاگرد بیخود
ازسید محمد حسین محمد تخلص شاگرد سید ہادی علی بیخود
ہوا شاہ دواوین نام بسم اللہ سے دیوان کا
حیرت افزائی جہاں جسم مصفا ہوگیا
جسم کیسا یان لباس جسم آدہا ہوگیا
گرمیان کین اسقدر ہر عضو شعلا ہوگیا
تصوریہ رہا آنکھوں میں اوس لیلی شمائل کا
نشانہ بعد مردن بھی رہا میں یرقال کا
پس مردن بھی مشکل ہے پہچنا یار تک دل کا
گردم مشق خیال خط جانان ہوگا
کبھی خورشید نہ افلاک میں پنہاں ہوگا
آیا وہ ماہ لاؤ پیالہ شراب کا
اوس مہ کی منہ لگا ہی پیالہ شراب کا
کب دی ہمیں وہ بھر کی پیالہ شراب کا
بزم صنم میں رات تھا چرچا شراب کا
آج ہمنے لب جاناں دیکھا
میکشی میں ہمسے آزردہ جو دلبر ہوگیا
کب پنپے گا چاند سا مکھڑا عیاں ہو جاے گا
کب خبر تھی انقلاب آسمان ہو جائے گا
رخ سے سر کی زلف ہوش ماہ انور اوڑگیا
سراسر کاٹ کی پچتائیے گا
مثل خورشید ہے اے گل یہ تن سرخ ترا
یہ مجکو شیوۂ افتادگی پسند ہوا
پس ازفنا اثر سوز دل دو چند ہوا
حسرت ایجان کہ ہے دلبر سے دل زار جدا
مرہے جائی جو ہو کیسو سے دل زار جدا
مرگیا لیکن نہ میں منت کش گردوں ہوا
دم بھی نکلا ساتھ جب آنکھوں سے جاری خوں ہوا
خواب میں تجسے ہمکنار رہا
صبح کا عالم ہی رخ میں گیسووں میں شام کا
ساغر بنا جو ہجر میں گرد ملال کا
اپنی محبوب کا کوچہ رہی مسکن اپنا
مری وحشت سی عالم محفل میں ہو صحرا کا
شیفتۂ زلف دوتا ہوگیا
آنکھوں میں تیری کیا میں سبکبار ہوگیا
ابر کیا گھر گھر کی آیا کھل گیا
نیمچہ سرتک پونہچکر تیز تر ہونے لگا
خط سے پنہاں عارض رشک قمر ہونے لگا
ساقی سے آج نامہ وپیغام ہوگیا
سودای عشق بادۂ گلفام ہوگیا
نہیں کٹتا ہے یہ میدان بلا
گردش میں ہے داغ دل بیتاب کا پھاہا
جو بھر صلح بھی وہ ترک جنگجو آیا
خط سیہ سے کانٹوں کا اک ڈھیر ہوگیا
فہم کیا ادراک کا سمجھے جو شان مصطفیٰ
صدمہ شب فرقت کا اوٹھانا نہیں اچھا
برنگ شمع ہواکٹ کی میرا سپر پیدا
میکشی پر مستعداری بت جو تو ہو جای گا
ردیف باے موحدہ
بات کا اپنے نہ جب پایا جواب
آئے ہو ہم پہ کرنیکو بیداد یا نصیب
کسکی شمع رخ سے ہے روشن چراغ آفتاب
کریگا دید سے قطع نظر خواب
عبث چھوا تری گیسوئے عنبرین کا سانپ
افزوں کہیں ہیں جس میں شمس قمر سے آپ
دیکھیں گر سروقد یار درخت
زبان کو وصل کی شب گفتگو کی کب فرصت ملی
ردیف تاے فوقانی
بھولے تم حرف وفا کیا باعث
تنگی دہن سے ہے اڑے بات
فصدلی اپنی ہے زاہد کسکو سودائی بہشت
ہوا کیا دل میں خون آرزو آج
ردیف جیم عربی
دل اٹھا تا ہے مزہ دیدلب یار کا آج
زندہ در گور ابتو ہے بے تیری اوآرام روح
ردیف حاے مہملہ
پھر گئی تیری جو چشم اوآرام روح
ردیف خاے معجمہ
ردیف دال مہملہ
بے سبب شمع کا اے گل نہیں اندام سفید
فقط لہو سے ہے کیا پیکر شہیدان سرخ
دہن کی طرح کریں گوش سامعان فریاد
ہمارے ساتھ کرے کیوں نہ آسماں فریاد
خط نہ شبگون ہے نہ مثل صبح ہے چہرا سفید
ہے بہار اک یہ بھی گر ہو خط سبزاسکا سفید
وصل میں رفتار معشوقانہ دکھلاتی ہے نیند
اللہ رے حسن رخ نیکوی محمد
کرتی ہوباتیں رکھکر جو شمشیر دوش پر
ردیف راے مہملہ
ذرا تو دیکھ لے وہ ہمکو آکر
تیغ رکھدے مرے قاتل نے جو عریاں سر پر
داغ سوداسے ہوے چشم نمایاں سر پر
چلا ہے اودل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
گذر جا عالم امکان سے اے دل نور جاں ہوکر
وصال میں تو کرو رحم مجسے لاغر پر
ہوں وہ بلبل جو کرے ذبح خفا تو ہوکر
ردیف زاے معجمہ
قبر کا ساتہ پس مرگ نچھوڑے پتھر
منہ آے نظر صاف وہ ہے یار کی تلوار
جانے نہیں دیتا مجھے دربان درانداز
ردیف ضاد معجمہ
سبزۂ خط بڑھا اور وقار عارض
کیا ہے دلچسپ ہے اے یار بہار عارض
آب شمشیر پلا دو مے احمر کی عوض
ساقیا آب جو مانگوں میں احمر کی عوض
شعلۂ رخساراکر دیکھے نبی پروانہ شمع
ردیف ظاے معجمہ
چلی بتخانے لوخدا حافظ
ردیف عین مہملہ
ہے یہ دو دن بزم مے ساقی ومطرب چنگ وشمع
ہو مثل شمع طور جو تنویر پاے شمع
ردیف غین معجمہ
سوز غم سے یاں جلا کرتی ہیں بے روغن چراغ
اشتعال آتش غم سے ہیں داغ تن چراغ
ردیف فا
دیکھ ادب آکر مرا گور غریباں کی طرف
پہولوں سے تیرے ہجر میں ہے داغدار باغ
خدا نما ہے بت سنگ آستانۂ عشق
ردیف قاف
ظاہر تری گلی سے ہے رنگیں سخن کا رنگ
ردیف کاف عربی
پیش عاشق چشم گریاں ولب خنداں ہے ایک
ردیف کاف فارسی
دیکھ بے بادہ کیا ہے اپنا رنگ
ردیف لام
کیونکر نہ جڑیں منہ سے ترے سوئے سخن پھول
نہ کیا ذبح گیا چھوڑ کے بسمل قاتل
دل ترا قتل پہ کیونکر نہ ہو مائل قاتل
نالان فراق دل میں ہے ماتم سراے دل
ہے عرش آستانۂ دوا متسرای دل
اے بتو شیفتۂ کا کل پیچان ہوں میں
ردیف نون
وصف اک گل کا کیا کرتی ہیں
ستم ایجاد جفا کرتی ہیں
کسقدر ہے فرق یوسف میں اور اپنی یار میں
اٹھا اٹھا کے جو پردہ نگاہ کرتی ہیں
تماشا دیکھنا ہے وہ اثر اس چشم جادو میں
ہاتھ میں سلسلۂ زلف گرہ گیر نہیں
اسقدر ہم ناتواں وزرا ہیں
اے پری مرنے کا مجھ وحشی کی ککو غم نہیں
تیغ وہ ابدار لائے ہیں
قوت باز وہوے ہیں اے سمن براونکیان
بھری ہے تونے جو ساقی شراب شیشی میں
میں سراپا مظہر اسم خدا واللہ ہوں
میری نالوں سے تہ وبالا ہوے اکثر زمین
گوہر اشک سے لبریز ہے سارا دامن
مثل اشک اک روز دل ہوگا نثارآستین
جو خاص بندی ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
غدار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں
ہے غلط گر تری دانتوں کو کہوں تارے ہیں
سب کو رخسار مخطط یہ تری پیاری ہیں
عاشق زلف ورخ دلدار آنکھیں ہوگئیں
میں کیا جہاں دنگ ہے اس اختلاف میں
اس چشم کی ابلق کو کہاں پاتی ہیں آنکھیں
غزل فارسی
بہ میں در وقت رفتن حسرت دیدای نگار من
کیا ترا اے غیرت لیلی میں سودائی نہیں
نظروں سے دور رہنے کا پیارے گلہ نہیں
متفرقات
نوجوانوں سے تھی پایا کنار پیر کو
ردیف واو
دیکھ اوناوک فگن جذب دل تخچیر کو
بے چین ہے یہ دیکھ کے مجھ بیقرار کو
مرمرگئی بلبل جو کیا یاد چمن کو
دوست سب رکھتے ہیں سر وقامت جلاد کو
اس پتی سے پوچھنا قاصد مکان یار کو
دوست دشمن ہیں برابر چرخ کجر فتار کو
بنے گلخن جلادوں آہ سوزان سے جو گلشن کو
حسد سے چمجھے ہیں کج فہم دشمن مجھ سخنور کو
دشمن بھی اپنے دوست سے یارب جدا نہ ہو
کیفیت اس میں بھی ہے جو ہم سے گناہ ہو
نہ بنی مثل حباب ابتو ہے گو ھر آنسو
آہ کھینچوں تو بھائی ابھے پتھر آنسو
گرالٹ کر دیکھیے تصویر پشت آئنہ
کاٹ تلوار کا دکھلائیے جانا مجھکو
ردیف ہاے ہوز
ہر عضو مسافر ہی نہیں کچھ سفرکے آنکھ
دم بھر جوندیکھے تجھے اے رشک پری آنکھ
تیغ عریاں پہ تمہاری جو پڑی میری آنکھ
جیتے جی بس وہ بت رہا ہمراہ
سائل کا ہاتھ چوم لی دست خدا کے ساتھ
مرتبہ پاتا ہے دست سیمبر میں آئنہ
بنگیا اعجاز دست سیمبر میں آئنہ
شوخی تو دیکھو کہتے ہیں اپنی چھپا کے ہاتھ
خط کو جانبازونکے درکار ہے کب سرنامہ
ردیف یا
وہ پریزاد منانے سے خفا ہوتا ہے
جوکہ طائر تری صدقے میں رہا ہوتا ہے
اے خیال گیسو جاناں ترے تاثیر سے
کی مری ہاتھوں نے بیعت حلقۂ زنجیر سے
کیا ہے گناہ جام میں گریاں شراب ہے
کیا دیوانہ سبکو اس پری نے ہاتھ کی تل سے
مرنے پر بھی ساتھ رنج گردش افلاک ہے
سولائے قصہ خوان فرقت کی شب سو یہ کہانی ہے
آنکھیں لڑائیں ہمنے جو اک خانہ جنگ سے
ہرگز نہ بھر رزق پھرے عارو ننگ سے
مری تربت پہ شور ملبلان ہے
دے مجھے خلعت شہادت کا خدا کے واسطے
کعبۂ ابرود کہا اوبت خدا کی واسطے
منزلت ہے مثل کعبہ ابرو خمدار کے
یاد گیسو میں جو آتا ہے کبھی ہوش مجھے
ایسا اک جام دے اے ساقی مینوش مجھے
برق و باران جسکو کہتے ہیں مرا افسانہ ہے
ایسے مری یوسف کی ہے رخسار میں گرمی
آہو نسے ہے اب کوچۂ دلدار میں گرمی
آنکھیں کھلیں ہوئی ہیں عجب خواب ناز ہے
ابروے یار کعبۂ اہل نیاز ہے
تری سرمیکی دنبالی پہ حسنے آنکھ ڈالی ہے
لڑائی وصل میں اس جنگجوسے ہونے والی ہے
نگھ کی چل رہی ہیں تیر اور مرگان صف آرا ہے
جو مجھ خم گشتہ کی جانب تری مژگان صف آرا ہے
کون جیتا ہے اے صنم مرکے
ایک عالم نے جو کچھ ساقی کے
ہمیشہ دل میں جو اپنی خیال زلف وکا کل ہے
جب سے اغوش سے جدا تو ہے
ہمارے اس وفا پر بھی دغا کے
ظاہر ہے شوق دید مرے جسم زراسے
زائل بہار حسن ہوے خط یار سے
دن ہوگیا نمود شب وصل کٹ گئی
چھانتا ہے خاک کیا تو گھر نانی کے لئے
پھر نکل آؤں لحد سے سر کٹا نے کے لئے
ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے
شانے میں پیچ سے ان زلفوںکا جو بن دیکھے
ہو رہائی ضعف کی تاثیر سے
بخت ہے تیرہ خط تقدیر سے
لال ہیں آپ ہے لب سرخی پان دور ہے
کانٹے پرجائیں زبان سے جو زبان دور ہے
رنگین لب لال کی صدا ہے
کیا سنگ رزق خوش ہوا گر ماہ عید ہے
لذت درد سراپا مجھے حاصل ہو جائے
اٹھتا ہے جاے شعلہ دھواں دلکے داغ سے
پروہ کدور توں سے کیا آج یار نے
کا کل جو اسکی شعلۂ رخ سے سرک گئی
مے دے کہ نہ دے بادۂ اطہر تو نہیں ہے
تم جو پتھراؤ کرو کور بھی بنیا ہو جائے
اے جان تو ہو دور تو کسطرح گل پڑی
دیکھکر مجھ زار کا مردہ وہ بولی نازسے
اسکے تلوار کی رومال کا پھاہا تو نہیں
ہوا ہے عشق تازہ ابتدائی آہ ہوتی ہے
غزل درنعت سرور کائنات
ذکر ابرو کی زبان عادی ہوئی
مرگئی ہم وہ روانہ ہوگئے
زردیاز وردیا مال دیا گنج دیے
متفرقات
رفعت طلب ایسا ہوں ابھی چین نہیں ہے
دیکھ پچتاے گا اوبت مری ترسانی سے
جسطرف تم ہواودھر سرمراجانا ہوجائے
ہجر میں اک ماہ کی آنسو ہماری گر پڑی
صبا کبھی جو ترا کوے یار میں ہو گذر
ترجیع بند
لب ودندان دکھا کر اپنی وہ کہتی ہیں شوخی سے
ترجیع بند
زیادہ ہے گل رعنا سے رنگ بو قلمدن
ہواہے ابکے یہ فیض مسیح باد بہار
یہی بہار کا اب حکم ہے گلستاں پر
ترے شفا کی خوشی سے ہوے ہیں پیر خواں
ہزار شکر خدانے تجھے دے جلد شفا
نہ ہے وہ چشم عنایت نہ وہ نگاہ کرم
جگر میں ناوک غم ہے گلی پہ تیغ ستم
قطعۂ تاریخ ترتیس باغ سلطانی
زہے منبع جود خان بھادر
درعہد بادشاہ محمد علی نمود
قطعۂ تاریخ ترتیب دیوان فقیر محمد خان بہادر گویا
از فطرت شہزادۂ خورشید شکوہ
وزیر خوش بیان شیریں زبان خوش کو
از مرزا علی حسین صاحب کیو ان تخلص شاگرد شیخصاحب مغفور
ازلالہ رام سہای صاحب رونق تخلص شاگرد جناب شیخصاحب مرحوم
دیوان شہ اقلیم سخن کا ہوا مطبوع
واہ کیا دیوان رنگیں ہو چکا مطبوع آج
کیا ہے تصویر چھپی نظم وزیرا فصح
از جناب سیّد محسن علی صاحب محسن تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازمیرا مداد حسین صاحب نشتر تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازجناب سیّد ہادی علی صاحب بیخود تخلص شاگرد جناب خواجہ صاحب مرحوم
صد شکر کلام کامل استاد
صد شکر وہ کلام بلیغ آج چھپ گیا
واہ کیا باغ مضامین ہو چکا مطبوع آج
زہے دیوان بے مثلی بہ آب و رنگ آرایش
چھپا ہے وہ دیوان بے مثل آج
ایضادرسال عیسوی
کیا خوب چھپی نظم جناب استاد
ازسید آغا جانصاحب ضبط تخلص شاگرد سیّد ہادی علی بیخود
چھپا کیا صاف دیوان وزیر افصح واکمل
وہ دیوان رنگیں ہو آج طبع
ازجناب شاہزادہ مرزا محمد سلیمان قدر بھادر تسخیر تخلص خلف اکبر جناب مرزا محمد خورشید قدر بہادر شاگرد سیّد ہادی علی بیخود
ازسید محمد حسین صاحب محمد تخلص خلف اکبر سید محسن علیصاحب شاگرد بیخود
از عبد الرحیم خاں صاحب رسالہ دار رحیم تخلص شاگرد سید ہادی یعلی بخود
ازار شاد علی شاہ صاحب سالک تخلص شاگرد سید ہادی علی بیخود
چھپا ہے اے محمد اب وہ دیوان
ازشیخ محمد بخش صاحب خلد تخلص شاگرد سیّد ہادی علی بیخود
محسود خاص وعام کا دیوان چھپ چکا
ازجناب مرزا محمد اصغر علی خانصاحب دہلوی نسیم تخلص
طبع چون گردید نیرنگ مضامین خیال
چودیوان وزیر از فضل یزدان
ازشادی لال صاحب چمن تخلص شاگرد نسیم دہلوی
حیف صد حیف ہوی تارک دنیای دنی
دیوان جناب شاہ اقلیم سخن
صد شکر مجتمع ہوی نظم وزیر آج
بنے گا بلبل اب ہر اک سخندان
زمین شعروسخن راگذاشت خواجہ وزیر
چون زدنیا گذشت گردیدہ
در غمش جملہ قدردان کلام
وزیر داشت تخلص جناب خواجہ وزیر
خواجہ وزیر شاعر خوش فکر وخوش بیان
از جناب مولوی محمد بخش صاحب شہید تخلص شاکر دشیخ صاحب مرحوم
ازمرزا حاتم علی بیگ صاحب مہر تخلص شاکرد شیخ صاحب مرحوم
ازلالہ رام سہای صاحب رونق تخلص شاگرد شیخصاحب مرحوم
شدزبیت فنا بملک بقا
افصح شاعران ہند کہ بود
جنت کو ہوی راہی دنیا سے وزیر افسوس
شاعربی نظیر خواجہ وزیر
بھادر جنگ اسیر تخلص شاگرد غلام ہمدانی مصحفی
ازعبد اللہ خان صاحب مہر تخلص شاگرد نسیم دہلوی
دوش بودم بفکر خود غمگین
کرداز دنیا سفر خواجہ وزیر
حکیم آہ جسوقت خواجہ وزیر
ازحکیم محمد ابراھیم صاحب حکیم تخلص شاگرد نسیم دہلوی
از شیخ اشرف علی صاحب خوشنویس اشرف تخلص شاگرد نسیم دہلوی
ہیہات دنیا سے اٹھے والد مرے خواجہ وزیر
از جناب خواجہ بادشاہ صاحب سفیر تخلص خلف اکبر خواجہ صاحب مرحوم
وزیر آج ملک عدم کو گئے
ازکبیر الدین صاحب نشاط تخلص شاگرد عبد اللہ خاں مہر
قبلہ و کعبہ جناب والدواستاد ہای
گئی جو ملک عدم کو وزیر شاہ سخن
ازجناب میر محسن علی صاحب محسن تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازحکیم میرا انعام حسین صاحب مجنون تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
دنیا سے اے سپہر اوٹھے خواجۂ وزیر
از میر محمد صاحب عرف میر محمدی سپہر تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازشیخ قادر علی صاحب موجد تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
از مرزا نظر علی بیگ صاحب تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
بادشاہ شاعران خواجہ وزیر
ازمولوی جلال الدین صاحب جلال تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازلالہ دہنپت رای صاحب زار تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازمرزا اصغر علی بیگ صاحب فقیر تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازعبدالصمد صاحب حزین تخلص شاگرد مولوی محمد حسن صاحب حسن
ازمولوی میر محمد حسن صاحب حسن تخلص شاگرد وخواجہ صاحب مرحوم
بادشاہ شاعران خواجہ وزیر
ازمنشی مرزا محمد رضا صاحب معجز تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازعبدالرحیم خان صاحب رسالہ دار رحیم تخلص شاگرد بیخود
ازسید محمد حسین محمد تخلص شاگرد سید ہادی علی بیخود
ہوا شاہ دواوین نام بسم اللہ سے دیوان کا
حیرت افزائی جہاں جسم مصفا ہوگیا
جسم کیسا یان لباس جسم آدہا ہوگیا
گرمیان کین اسقدر ہر عضو شعلا ہوگیا
تصوریہ رہا آنکھوں میں اوس لیلی شمائل کا
نشانہ بعد مردن بھی رہا میں یرقال کا
پس مردن بھی مشکل ہے پہچنا یار تک دل کا
گردم مشق خیال خط جانان ہوگا
کبھی خورشید نہ افلاک میں پنہاں ہوگا
آیا وہ ماہ لاؤ پیالہ شراب کا
اوس مہ کی منہ لگا ہی پیالہ شراب کا
کب دی ہمیں وہ بھر کی پیالہ شراب کا
بزم صنم میں رات تھا چرچا شراب کا
آج ہمنے لب جاناں دیکھا
میکشی میں ہمسے آزردہ جو دلبر ہوگیا
کب پنپے گا چاند سا مکھڑا عیاں ہو جاے گا
کب خبر تھی انقلاب آسمان ہو جائے گا
رخ سے سر کی زلف ہوش ماہ انور اوڑگیا
سراسر کاٹ کی پچتائیے گا
مثل خورشید ہے اے گل یہ تن سرخ ترا
یہ مجکو شیوۂ افتادگی پسند ہوا
پس ازفنا اثر سوز دل دو چند ہوا
حسرت ایجان کہ ہے دلبر سے دل زار جدا
مرہے جائی جو ہو کیسو سے دل زار جدا
مرگیا لیکن نہ میں منت کش گردوں ہوا
دم بھی نکلا ساتھ جب آنکھوں سے جاری خوں ہوا
خواب میں تجسے ہمکنار رہا
صبح کا عالم ہی رخ میں گیسووں میں شام کا
ساغر بنا جو ہجر میں گرد ملال کا
اپنی محبوب کا کوچہ رہی مسکن اپنا
مری وحشت سی عالم محفل میں ہو صحرا کا
شیفتۂ زلف دوتا ہوگیا
آنکھوں میں تیری کیا میں سبکبار ہوگیا
ابر کیا گھر گھر کی آیا کھل گیا
نیمچہ سرتک پونہچکر تیز تر ہونے لگا
خط سے پنہاں عارض رشک قمر ہونے لگا
ساقی سے آج نامہ وپیغام ہوگیا
سودای عشق بادۂ گلفام ہوگیا
نہیں کٹتا ہے یہ میدان بلا
گردش میں ہے داغ دل بیتاب کا پھاہا
جو بھر صلح بھی وہ ترک جنگجو آیا
خط سیہ سے کانٹوں کا اک ڈھیر ہوگیا
فہم کیا ادراک کا سمجھے جو شان مصطفیٰ
صدمہ شب فرقت کا اوٹھانا نہیں اچھا
برنگ شمع ہواکٹ کی میرا سپر پیدا
میکشی پر مستعداری بت جو تو ہو جای گا
ردیف باے موحدہ
بات کا اپنے نہ جب پایا جواب
آئے ہو ہم پہ کرنیکو بیداد یا نصیب
کسکی شمع رخ سے ہے روشن چراغ آفتاب
کریگا دید سے قطع نظر خواب
عبث چھوا تری گیسوئے عنبرین کا سانپ
افزوں کہیں ہیں جس میں شمس قمر سے آپ
دیکھیں گر سروقد یار درخت
زبان کو وصل کی شب گفتگو کی کب فرصت ملی
ردیف تاے فوقانی
بھولے تم حرف وفا کیا باعث
تنگی دہن سے ہے اڑے بات
فصدلی اپنی ہے زاہد کسکو سودائی بہشت
ہوا کیا دل میں خون آرزو آج
ردیف جیم عربی
دل اٹھا تا ہے مزہ دیدلب یار کا آج
زندہ در گور ابتو ہے بے تیری اوآرام روح
ردیف حاے مہملہ
پھر گئی تیری جو چشم اوآرام روح
ردیف خاے معجمہ
ردیف دال مہملہ
بے سبب شمع کا اے گل نہیں اندام سفید
فقط لہو سے ہے کیا پیکر شہیدان سرخ
دہن کی طرح کریں گوش سامعان فریاد
ہمارے ساتھ کرے کیوں نہ آسماں فریاد
خط نہ شبگون ہے نہ مثل صبح ہے چہرا سفید
ہے بہار اک یہ بھی گر ہو خط سبزاسکا سفید
وصل میں رفتار معشوقانہ دکھلاتی ہے نیند
اللہ رے حسن رخ نیکوی محمد
کرتی ہوباتیں رکھکر جو شمشیر دوش پر
ردیف راے مہملہ
ذرا تو دیکھ لے وہ ہمکو آکر
تیغ رکھدے مرے قاتل نے جو عریاں سر پر
داغ سوداسے ہوے چشم نمایاں سر پر
چلا ہے اودل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
گذر جا عالم امکان سے اے دل نور جاں ہوکر
وصال میں تو کرو رحم مجسے لاغر پر
ہوں وہ بلبل جو کرے ذبح خفا تو ہوکر
ردیف زاے معجمہ
قبر کا ساتہ پس مرگ نچھوڑے پتھر
منہ آے نظر صاف وہ ہے یار کی تلوار
جانے نہیں دیتا مجھے دربان درانداز
ردیف ضاد معجمہ
سبزۂ خط بڑھا اور وقار عارض
کیا ہے دلچسپ ہے اے یار بہار عارض
آب شمشیر پلا دو مے احمر کی عوض
ساقیا آب جو مانگوں میں احمر کی عوض
شعلۂ رخساراکر دیکھے نبی پروانہ شمع
ردیف ظاے معجمہ
چلی بتخانے لوخدا حافظ
ردیف عین مہملہ
ہے یہ دو دن بزم مے ساقی ومطرب چنگ وشمع
ہو مثل شمع طور جو تنویر پاے شمع
ردیف غین معجمہ
سوز غم سے یاں جلا کرتی ہیں بے روغن چراغ
اشتعال آتش غم سے ہیں داغ تن چراغ
ردیف فا
دیکھ ادب آکر مرا گور غریباں کی طرف
پہولوں سے تیرے ہجر میں ہے داغدار باغ
خدا نما ہے بت سنگ آستانۂ عشق
ردیف قاف
ظاہر تری گلی سے ہے رنگیں سخن کا رنگ
ردیف کاف عربی
پیش عاشق چشم گریاں ولب خنداں ہے ایک
ردیف کاف فارسی
دیکھ بے بادہ کیا ہے اپنا رنگ
ردیف لام
کیونکر نہ جڑیں منہ سے ترے سوئے سخن پھول
نہ کیا ذبح گیا چھوڑ کے بسمل قاتل
دل ترا قتل پہ کیونکر نہ ہو مائل قاتل
نالان فراق دل میں ہے ماتم سراے دل
ہے عرش آستانۂ دوا متسرای دل
اے بتو شیفتۂ کا کل پیچان ہوں میں
ردیف نون
وصف اک گل کا کیا کرتی ہیں
ستم ایجاد جفا کرتی ہیں
کسقدر ہے فرق یوسف میں اور اپنی یار میں
اٹھا اٹھا کے جو پردہ نگاہ کرتی ہیں
تماشا دیکھنا ہے وہ اثر اس چشم جادو میں
ہاتھ میں سلسلۂ زلف گرہ گیر نہیں
اسقدر ہم ناتواں وزرا ہیں
اے پری مرنے کا مجھ وحشی کی ککو غم نہیں
تیغ وہ ابدار لائے ہیں
قوت باز وہوے ہیں اے سمن براونکیان
بھری ہے تونے جو ساقی شراب شیشی میں
میں سراپا مظہر اسم خدا واللہ ہوں
میری نالوں سے تہ وبالا ہوے اکثر زمین
گوہر اشک سے لبریز ہے سارا دامن
مثل اشک اک روز دل ہوگا نثارآستین
جو خاص بندی ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
غدار یار پہ زلف سیاہ فام نہیں
ہے غلط گر تری دانتوں کو کہوں تارے ہیں
سب کو رخسار مخطط یہ تری پیاری ہیں
عاشق زلف ورخ دلدار آنکھیں ہوگئیں
میں کیا جہاں دنگ ہے اس اختلاف میں
اس چشم کی ابلق کو کہاں پاتی ہیں آنکھیں
غزل فارسی
بہ میں در وقت رفتن حسرت دیدای نگار من
کیا ترا اے غیرت لیلی میں سودائی نہیں
نظروں سے دور رہنے کا پیارے گلہ نہیں
متفرقات
نوجوانوں سے تھی پایا کنار پیر کو
ردیف واو
دیکھ اوناوک فگن جذب دل تخچیر کو
بے چین ہے یہ دیکھ کے مجھ بیقرار کو
مرمرگئی بلبل جو کیا یاد چمن کو
دوست سب رکھتے ہیں سر وقامت جلاد کو
اس پتی سے پوچھنا قاصد مکان یار کو
دوست دشمن ہیں برابر چرخ کجر فتار کو
بنے گلخن جلادوں آہ سوزان سے جو گلشن کو
حسد سے چمجھے ہیں کج فہم دشمن مجھ سخنور کو
دشمن بھی اپنے دوست سے یارب جدا نہ ہو
کیفیت اس میں بھی ہے جو ہم سے گناہ ہو
نہ بنی مثل حباب ابتو ہے گو ھر آنسو
آہ کھینچوں تو بھائی ابھے پتھر آنسو
گرالٹ کر دیکھیے تصویر پشت آئنہ
کاٹ تلوار کا دکھلائیے جانا مجھکو
ردیف ہاے ہوز
ہر عضو مسافر ہی نہیں کچھ سفرکے آنکھ
دم بھر جوندیکھے تجھے اے رشک پری آنکھ
تیغ عریاں پہ تمہاری جو پڑی میری آنکھ
جیتے جی بس وہ بت رہا ہمراہ
سائل کا ہاتھ چوم لی دست خدا کے ساتھ
مرتبہ پاتا ہے دست سیمبر میں آئنہ
بنگیا اعجاز دست سیمبر میں آئنہ
شوخی تو دیکھو کہتے ہیں اپنی چھپا کے ہاتھ
خط کو جانبازونکے درکار ہے کب سرنامہ
ردیف یا
وہ پریزاد منانے سے خفا ہوتا ہے
جوکہ طائر تری صدقے میں رہا ہوتا ہے
اے خیال گیسو جاناں ترے تاثیر سے
کی مری ہاتھوں نے بیعت حلقۂ زنجیر سے
کیا ہے گناہ جام میں گریاں شراب ہے
کیا دیوانہ سبکو اس پری نے ہاتھ کی تل سے
مرنے پر بھی ساتھ رنج گردش افلاک ہے
سولائے قصہ خوان فرقت کی شب سو یہ کہانی ہے
آنکھیں لڑائیں ہمنے جو اک خانہ جنگ سے
ہرگز نہ بھر رزق پھرے عارو ننگ سے
مری تربت پہ شور ملبلان ہے
دے مجھے خلعت شہادت کا خدا کے واسطے
کعبۂ ابرود کہا اوبت خدا کی واسطے
منزلت ہے مثل کعبہ ابرو خمدار کے
یاد گیسو میں جو آتا ہے کبھی ہوش مجھے
ایسا اک جام دے اے ساقی مینوش مجھے
برق و باران جسکو کہتے ہیں مرا افسانہ ہے
ایسے مری یوسف کی ہے رخسار میں گرمی
آہو نسے ہے اب کوچۂ دلدار میں گرمی
آنکھیں کھلیں ہوئی ہیں عجب خواب ناز ہے
ابروے یار کعبۂ اہل نیاز ہے
تری سرمیکی دنبالی پہ حسنے آنکھ ڈالی ہے
لڑائی وصل میں اس جنگجوسے ہونے والی ہے
نگھ کی چل رہی ہیں تیر اور مرگان صف آرا ہے
جو مجھ خم گشتہ کی جانب تری مژگان صف آرا ہے
کون جیتا ہے اے صنم مرکے
ایک عالم نے جو کچھ ساقی کے
ہمیشہ دل میں جو اپنی خیال زلف وکا کل ہے
جب سے اغوش سے جدا تو ہے
ہمارے اس وفا پر بھی دغا کے
ظاہر ہے شوق دید مرے جسم زراسے
زائل بہار حسن ہوے خط یار سے
دن ہوگیا نمود شب وصل کٹ گئی
چھانتا ہے خاک کیا تو گھر نانی کے لئے
پھر نکل آؤں لحد سے سر کٹا نے کے لئے
ترے رخ کا کسے سودا نہیں ہے
شانے میں پیچ سے ان زلفوںکا جو بن دیکھے
ہو رہائی ضعف کی تاثیر سے
بخت ہے تیرہ خط تقدیر سے
لال ہیں آپ ہے لب سرخی پان دور ہے
کانٹے پرجائیں زبان سے جو زبان دور ہے
رنگین لب لال کی صدا ہے
کیا سنگ رزق خوش ہوا گر ماہ عید ہے
لذت درد سراپا مجھے حاصل ہو جائے
اٹھتا ہے جاے شعلہ دھواں دلکے داغ سے
پروہ کدور توں سے کیا آج یار نے
کا کل جو اسکی شعلۂ رخ سے سرک گئی
مے دے کہ نہ دے بادۂ اطہر تو نہیں ہے
تم جو پتھراؤ کرو کور بھی بنیا ہو جائے
اے جان تو ہو دور تو کسطرح گل پڑی
دیکھکر مجھ زار کا مردہ وہ بولی نازسے
اسکے تلوار کی رومال کا پھاہا تو نہیں
ہوا ہے عشق تازہ ابتدائی آہ ہوتی ہے
غزل درنعت سرور کائنات
ذکر ابرو کی زبان عادی ہوئی
مرگئی ہم وہ روانہ ہوگئے
زردیاز وردیا مال دیا گنج دیے
متفرقات
رفعت طلب ایسا ہوں ابھی چین نہیں ہے
دیکھ پچتاے گا اوبت مری ترسانی سے
جسطرف تم ہواودھر سرمراجانا ہوجائے
ہجر میں اک ماہ کی آنسو ہماری گر پڑی
صبا کبھی جو ترا کوے یار میں ہو گذر
ترجیع بند
لب ودندان دکھا کر اپنی وہ کہتی ہیں شوخی سے
ترجیع بند
زیادہ ہے گل رعنا سے رنگ بو قلمدن
ہواہے ابکے یہ فیض مسیح باد بہار
یہی بہار کا اب حکم ہے گلستاں پر
ترے شفا کی خوشی سے ہوے ہیں پیر خواں
ہزار شکر خدانے تجھے دے جلد شفا
نہ ہے وہ چشم عنایت نہ وہ نگاہ کرم
جگر میں ناوک غم ہے گلی پہ تیغ ستم
قطعۂ تاریخ ترتیس باغ سلطانی
زہے منبع جود خان بھادر
درعہد بادشاہ محمد علی نمود
قطعۂ تاریخ ترتیب دیوان فقیر محمد خان بہادر گویا
از فطرت شہزادۂ خورشید شکوہ
وزیر خوش بیان شیریں زبان خوش کو
از مرزا علی حسین صاحب کیو ان تخلص شاگرد شیخصاحب مغفور
ازلالہ رام سہای صاحب رونق تخلص شاگرد جناب شیخصاحب مرحوم
دیوان شہ اقلیم سخن کا ہوا مطبوع
واہ کیا دیوان رنگیں ہو چکا مطبوع آج
کیا ہے تصویر چھپی نظم وزیرا فصح
از جناب سیّد محسن علی صاحب محسن تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازمیرا مداد حسین صاحب نشتر تخلص شاگرد خواجہ صاحب مرحوم
ازجناب سیّد ہادی علی صاحب بیخود تخلص شاگرد جناب خواجہ صاحب مرحوم
صد شکر کلام کامل استاد
صد شکر وہ کلام بلیغ آج چھپ گیا
واہ کیا باغ مضامین ہو چکا مطبوع آج
زہے دیوان بے مثلی بہ آب و رنگ آرایش
چھپا ہے وہ دیوان بے مثل آج
ایضادرسال عیسوی
کیا خوب چھپی نظم جناب استاد
ازسید آغا جانصاحب ضبط تخلص شاگرد سیّد ہادی علی بیخود
چھپا کیا صاف دیوان وزیر افصح واکمل
وہ دیوان رنگیں ہو آج طبع
ازجناب شاہزادہ مرزا محمد سلیمان قدر بھادر تسخیر تخلص خلف اکبر جناب مرزا محمد خورشید قدر بہادر شاگرد سیّد ہادی علی بیخود
ازسید محمد حسین صاحب محمد تخلص خلف اکبر سید محسن علیصاحب شاگرد بیخود
از عبد الرحیم خاں صاحب رسالہ دار رحیم تخلص شاگرد سید ہادی یعلی بخود
ازار شاد علی شاہ صاحب سالک تخلص شاگرد سید ہادی علی بیخود
چھپا ہے اے محمد اب وہ دیوان
ازشیخ محمد بخش صاحب خلد تخلص شاگرد سیّد ہادی علی بیخود
محسود خاص وعام کا دیوان چھپ چکا
ازجناب مرزا محمد اصغر علی خانصاحب دہلوی نسیم تخلص
طبع چون گردید نیرنگ مضامین خیال
چودیوان وزیر از فضل یزدان
ازشادی لال صاحب چمن تخلص شاگرد نسیم دہلوی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।