غبار جاں پس دیوار و در سمیٹا ہے
دیار سنگ میں شیشے کا گھر سمیٹا ہے
سمندروں میں بھی سورج نے بو دیئے ہیں سراب
گئے تھے سیپ اٹھانے بھنور سمیٹا ہے
صعوبتوں کی کوئی حد نہ آخری دیکھی
ہر ایک راہ میں زاد سفر سمیٹا ہے
محبتوں نے دیا ہے صداقتوں کا شعور
بکھر گیا ہے جب اک بار گھر سمیٹا ہے
ہوا کے ساتھ سفر میں قباحتیں تھیں بہت
مثال ابر بکھرتا نگر سمیٹا ہے
اندھیری رات میں سورج کی جستجو کی ہے
ہواؤں میں بھی چراغ نظر سمیٹا ہے
جو شاخ شاخ پرندوں کا آشیانہ تھا
وہ برگ برگ پرانا شجر سمیٹا ہے
نمو کے رب کبھی اس منصفی کی داد تو دے
شجر کوئی نہ لگایا ثمر سمیٹا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.