امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
تو یہ سمجھو کہ بنیاد خربات مغاں رکھ دی
کہوں کیا پیش زاہد کیوں شراب ارغواں رکھ دی
مری توفیق جو کچھ تھی برائے میہماں رکھ دی
یہاں تک تو نبھایا میں نے ترک مے پرستی کو
کہ پینے کو اٹھا لی اور لیں انگڑائیاں رکھ دی
جناب شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی
تمہیں پروا نہ ہو مجھ کو تو جنس دل کی پروا ہے
کہاں ڈھونڈوں کہاں پھینکی کہاں دیکھوں کہاں رکھ دی
لگا لیں گے اسے اہل وفا بے شبہ آنکھوں سے
اگر پائے عدو پر اس نے خاک آستاں رکھ دی
ادھر پر نوچ کر ڈالا قفس میں اف رے بیدردی
ادھر اک جلتی چنگاری میان آشیاں رکھ دی
ضمیر اس کا ڈبو دے گا اسے آب خجالت میں
وفاداری کی تہمت غیر پر کیوں بد گماں رکھ دی
ہوس مستی کی سائلؔ کو نہیں کافی ہے تھوڑی سی
پیالے میں اگر پس خوردۂ پیر مغاں رکھ دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.